کراچی (بی ایل ٰآئی)وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت سندھ کی ترقی میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے اور زیادہ تر وفاقی فنڈ کے تحت صوبہ سندھ میں جاری منصوبوں میں ان کی دلچسپی ہے۔
اس قسم کی صورتحال میں صوبہ سندھ کے پاس کوئی آپشن نہیں بچتا ہےمگر اس حوالے سے پہلے مرحلے میں خاطر خواہ پلیٹ فارمز پر آواز اٹھائی جائے گی اس کے بعد آپشن کھلے ہیں اور اسمبلیوں میں احتجاج کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے یہ بات آج نئی گج ڈیم ،ڈراوت ڈیم اور سکھر بیراج کی بحالی سے متعلق جائزہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی ۔ اجلاس میں رکن ای سی این ای سی نثار احمد کھوڑو، چیف سیکریٹری سندھ ممتاز علی شاہ، چیئرمین پی اینڈ ڈی محمد وسیم،وزیراعلیٰ سندھ کے اسپیشل اسسٹنٹ سیکریٹری برائے آبپاشی اشفاق میمن،پرنسپل سیکریٹری ساجد جمال ابڑو، اسپیشل سیکریٹری ایگریکلچر شکیل شیخ، اسپیشل سیکریٹری ایریگیشن اسلم انصاری اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اپنے پی ایس ڈی پی سے سکھر بیراج کی بحالی اور ماڈرنائزیشن جیسے اہم منصوبوں کو واپس لے لیاہے اور اپنے 100 ملین روپے وزارتِ منصوبہ بندی و اصلاحات کو سرنڈر کردیئے ہیں جوکہ سندھ کے لوگوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سکھر بیراج ہماری زرعی معیشت کی لائف لائن ہے اور صوبائی حکومت نے بڑی جدوجہد اور کاوشوں کے بعد اس کی وفاقی حکومت سے منظوری حاصل کی تھی۔اس پر چیئرمین پی اینڈ ڈی محمد وسیم نے وزیراعلیٰ سندھ کو بتایاکہ وفاقی حکومت نے انہیں سکھر بیراج اسکیم کی ری ایڈجسٹمنٹ کے لیے ایک خط بھیجا ہے ۔
مراد علی شاہ نے نئی گج کی ایک اور اسکیم پر کہا کہ اس کا 2009 ء میں وفاقی حکومت نے 16.9 بلین روپے سے آغاز کیاتھا جس کا مقصد زرعی ترقی کے لیے آبپاشی کے پانی کی ریسورسز کی بچت کرنا ، سیلاب کے پانی سے تحفظ اور ہائیڈرو پاور جنریشن تھا۔ اس ڈیم کی تعمیر سے سیلابی پانی کو روک کر نئی گج ہل ٹورینٹ میں گرانا تھا تاکہ 22962ایکٹر زمین کو سیراب کیاجاسکے۔
انہوں نے کہا کہ 2009 میں منصوبے کی لاگت 16.924 بلین روپے تھی جس میں صوبائی حکومت کا حصہ 1.56 بلین روپے تھا ۔2012 میں اس منصوبے پر نظر ثانی کی گئی اور نظر ثانی شدہ لاگت 26.23بلین روپے تھی جس میں صوبائی حکومت کا حصہ 1.89 بلین روپے مقرر ہوا۔ اس کے بعد جنوری 2019 میں اس پر دوبارہ نظر ثانی کی گئی اور نظر ثانی شدہ لاگت 41.79 بلین روپے آئی اور اب وفاقی حکومت سندھ حکومت کو اس کے حصے کے طورپر 22 بلین روپے ادا کرنے کا کہہ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہے ، ہم یہ چاہتے ہیں کہ وفاقی حکومت نے سندھ میں جو منصوبے شروع کیے ہیں وہ انہیں لازمی مکمل کرے۔انہوں نے نثارکھوڑو جوکہ سندھ کے ایکنک میں ممبر ہیں پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کو ایکنک کے اجلاس جوکہ 23 جنوری کو اسلام آباد میں ہوگا میں اٹھائیں۔ہمارا موقف بالکل واضح ہے جس سے ہم نے انہیں آگاہ کردیاہے۔ واضح رہے کہ نئی گج پروجیکٹ ضلع جام شورو میں واقع ہے ۔
اجلاس میں ایک اور منصوبے ڈراوت ڈیم پر بھی غور کیاگیا یہ منصوبہ تعلقہ تھانہ بولا خان ضلع جامشورو کے گائوں جہان گری کے نزدیک نئی باران ریور کے پار گریوٹی ڈیم واقع ہے۔
وفاقی حکومت نے 2010 میں 3.17 بلین روپے کی لاگت سے یہ منصوبہ شروع کیاتھا جس کا مقصد 150 ملین کیوبک میٹرز پانی ذخیرہ کرنا تھا تاکہ 10000 ایکٹر زمین کو سیراب کیا جائے، اس کی تکمیل کی تاریخ اگست 2014 تھی۔مراد علی شاہ نے کہاکہ منصوبے کی دوسری نظر ثانی شدہ لاگت 11.7 بلین روپے تھی مگر ابھی تک منصوبہ مکمل نہیں ہوا ہے اس سست روی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت صوبہ سندھ میں اپنے منصوبے مکمل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ دیگر منصوبے جن پر سست رفتاری سے کام ہورہا ہے اس میں آر بی او ڈی ۔ Iاور II اور رینی کینال شامل ہیں ۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ کراچی شہر کے لیے 1200 کیوسک (650 ایم جی ڈی) اضافی پانی مختص کرے۔