چند دن پہلے میری ایک سہیلی سے ملاقات ہوئی، کھانے کے دوران باتوں باتوں میں کہنے لگی ‘یہ بتاؤ کہ دبئی یا مسقط وغیرہ میں بھی حجاب اور پردہ لازمی ہے؟ میں نے سوچ لیا ہے کہ جب تک آسٹریلیا کا ویزہ نہیں لگتا،کہیں بھی چلی جاؤں گی، چاہے مڈل ایسٹ ہی کا کوئی ملک کیوں نہ ہو، لیکن پاکستان میں نہیں رہوں گی، میں تنگ آ چکی ہوں’۔
شیما صدیقی
میں اس کی باتوں پر مسکرا دی۔ صائمہ جذباتی اور صاف گو خاتون ہیں۔ ہنستی مسکراتی ہوئی صائمہ سے تو اکثر ملاقات رہتی ہے، لیکن غصے سے بھری صائمہ کو کافی دن بعد دیکھا۔ میں سمجھ گئی کہ شاید ان کے ساتھ کچھ ایسا ہوا ہے، جو اُن کی برداشت ختم ہوگئی ہے، ورنہ ہم خواتین روزانہ ہی ‘ایسے ویسے’ حالات کا مقابلہ بڑی خوب صورتی سے ‘نظر انداز’ کرکے کرتی ہیں، کیونکہ تماشہ بننا اور تماشہ بنانا ہم افورڑ نہیں کر سکتے۔
میں نے صائمہ کی سخت اور سنجیدہ باتوں کو زائل کرنے کی کوشش کی اور پوچھا کہ ‘کیا ہوا ہے؟’، بس میرے پوچھنے کی دیر تھی کہ وہ آنکھیں نکال کر اونچی آواز سے کہنے لگی، ‘روز ہی کا قصہ ہے۔ سڑک پر ہر راہ چلتا ہم خواتین کو ایسے دیکھتا ہے، جیسے کھا جائے گا۔ بسوں میں سفر ذہنی کوفت کے سوا کچھ نہیں اور اس سے بھی مشکل کام بس اسٹاپ پر کھڑے ہونا ہے۔ دیکھ لو میرا لباس نامناسب بھی نہیں، لیکن لوگ ایسے دیکھتے ہیں جیسے گھورنے کا پیدائشی حق رکھتے ہوں اور جملے کسنے میں معلوم نہیں کون سی تفریح ہے، میں آج تک نہیں سمجھ سکی’۔
صائمہ کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا، بولی ‘اگر ان گھورتی آنکھوں کو کچھ کہہ دو تو ایسے بن جاتے ہیں جیسے ہم نے ان پر الزام لگا دیا ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ روزانہ سفر کرنے والی لڑکیاں اور خواتین اس دھکم پیل اور نامناسب رویوں کا مقابلہ کیسے کرتی ہوں گی؟ میری طرح کیا ان کا بھی دل چاہتا ہوگا کہ ٹکر مار کر گزرنے والوں کو گرا دیں اور گھورتی آنکھوں کو پھوڑ دیں۔ کبھی سوچتی ہوں کہ حجاب لینا شروع کر دوں۔ شاید ان ٹوپی پہنے اور بظاہر مذہبی لوگوں کے رویوں میں فرق آئے، تم بتاؤ یہ ہمارے معاشرے کو کیا ہو رہا ہے؟’
صائمہ کے اس سادہ سے سوال کا جواب کافی مشکل تھا، کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب سخت اور دقیانوسی نہیں۔ اسلام نے عورتوں کے حقوق پہلی بار تحریری طور پر دیئے۔ یہ میں اور آپ ہیں جو خود ہی اس کی تشریح کرتے ہیں اور اپنی مرضی کا مذہب چلاتے ہیں۔ میں صائمہ کو بتانا چاہتی ہوں کہ جن رویوں کی وہ بات کر رہی ہے، اس کا مذہب سے لینا دینا نہیں بلکہ یہ ایک معاشرتی برائی ہے، جو کوئی نہیں روکتا، کیونکہ اکثریت کی رائے میں یہ برائی ہے ہی نہیں!
قصبہ کالونی میں صرف ایک سیلفی لینے پر باپ دادا کی غیرت جاگتی ہے اور گھر کی عزت بچانے کے لیے مرینہ کو زہر پینا پڑتا ہے
ساری بات ہماری سوچ کی ہے۔ اکثر گھروں اور اردگرد کے ماحول میں خواتین کے لیے نامناسب رویئے اور سلوک درست سمجھ لیے گئے ہیں، لہذا ایک 16، 17 سال کا لڑکا بھی بس اسٹاپ پر کھڑی لڑکی کو غلط انداز سے دیکھنے کی ‘طاقت’ رکھتا ہے اور ایک ادھڑ عمر کے صاحب بھی اپنا ‘شوق’ پورا کرتے ہیں۔
پھر پسند کی شادی کو بھی ایک مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ آئے دن غیرت کے نام پر قتل کی خبروں سے تو یہی تاثر ملتا ہے کہ بیٹی پنجاب کی ہو یا بلوچستان کی، ہر برائی کی جڑ وہ ہی ہے۔ سندھ میں پسند کی شادی کی سزا کاروکاری ہے تو خیبرپختونخوا میں شادی سے انکار کا جواب گالی اور گولی سے دیا جاتا ہے۔ یہ سب معاشرتی اور ذہنی برائیاں ہیں۔ مذہب کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔ ہر مذہب پسند کی شادی کی اجازت دیتا ہے، کچھ حد بندیاں اور ذمہ داریاں ضرور ہیں لیکن کسی کی جان لینے کا حق کسی دوسرے انسان کے ہاتھ میں نہیں۔ ہمارے معاشرے میں ہر کمزور انسان آسان حدف ہوتا ہے، اس لیے مار دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات اس میں عورت اور مرد کی بھی قید نہیں ہوتی۔
معاشرے کی غلط سوچ ہے، جو زینب کو مارنے والا بھی مذہبی چھاپ کے پیچھے خود کو بچاتا ہے اور قندیل بلوچ اس لیے قتل کر دی جاتی ہے کہ وہ تھی ہی اتنی بری کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ قندیل قتل کیس کے حوالے سے اکثریت کی رائے یہ ہے کہ کسی قریبی رشتہ دار کی غیرت نے جوش مارا ہوگا۔ بہت سوں نے تو یہ بھی کہا کہ خون کو جوش تو مارنا ہی تھا۔ اس کی میڈیا پر کیسی کیسی تصاویر آتی تھیں، بلکہ ایک حد تک تو میڈیا بھی قصور وار ہے۔ جس طرح اس کی خبروں کو بریکنگ اور سنسی خیز انداز میں چلایا گیا، کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسے میڈیا نے مارا؟
ہمارے ڈراموں میں روتی پیٹتی ماں، بیٹی، بہو اور بہن ‘پرفیکٹ ریٹنگ آئٹم’ ہیں۔
ہمارے معاشرے میں مردوں کے لیے اصول کچھ ہیں اور عورت کے لیے تو سِرے سے کوئی اصول ہی نہیں، کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ کیسے دوغلے لوگ ہیں ہم؟ بھائی سب کچھ کر سکتا ہے اور بہن وہ تو بس پاؤں کی جوتی ہے، کچھ کرکے تو دیکھے۔ گھر ہی نہیں بلکہ پورا معاشرہ مل کر اس جوتی کے چھتیس ٹکڑے نہ کر دے تو کہیے گا۔
قصبہ کالونی میں صرف ایک سیلفی لینے پر باپ دادا کی غیرت جاگتی ہے اور گھر کی عزت بچانے کے لیے مرینہ کو زہر پینا پڑتا ہے اور اس کے منگیتر اور خالہ زاد کوسوات میں گولی مار دی جاتی ہے۔ کون سی کہانی سناؤں اور کون سی جانے دوں!
عورت کو کمزور سمجھ کر اس پر ظلم کرنا یا کسی بدلے کی آگ میں جھلسانا صرف ہمارے معاشرے کا کام نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہی یہ رسم چلی ہے کہ کوئی عورت سر اٹھا کر نہ چلے۔ نومبر 2018 میں اقوام متحدہ کی جرائم اور منشیات کے حوالے سے ایک رپورٹ سامنے آئی جس میں کہا گیا تھا کہ دنیا بھر میں اوسطاً 137 خواتین گھر یا خاندان کے افراد کے ہاتھوں موت کی نیند سلا دی گئیں، یعنی عورت اپنے محافظوں کے سائے تلے مار دی جاتی ہے۔
معاشرے میں عورت کے مظلوم کردار کو پسند کیا جاتا ہے۔ ہمارے ڈراموں میں روتی پیٹتی ماں، بیٹی، بہو اور بہن ‘پرفیکٹ ریٹنگ آئٹم’ ہیں۔ اب عورت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ وہ اپنے لیے کون سا کردار منتخب کرتی ہے۔ معاشرہ سمجھے نہ سمجھے لیکن مذہب سمجھدار، محنتی، شائستہ، ملنسار اور مضبوط کردار والی عورت کو پسند کرتا ہے جو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرے۔ ہاں وہ راہنمائی لے سکتی ہے لیکن حتمی فیصلہ اسی کا ہوگا۔
ہمارے معاشرے کو پُر اعتماد عورت پسند نہیں، اس لیے وہ نہ ہی عورت کے تعلیم کے حق میں ہے اور نہ ہی اس کو آگاہی دینا پسند کرتا ہے۔ کہیں وہ کچھ جان نہ لے، اپنا حق نہ مانگ لے، چاہے وہ حق اس کی تعلیم کا ہو، شعور کا یا وراثت کا ہو۔ہم عورتوں کو بھی سوچنا ہوگا کہ خود کو مظلوم عورت بنا کر پیش کردینے میں نہ ہمارا فائدہ ہے اور نہ ہی ہمارے معاشرے کا۔ فہم و فراست اچھی چیز ہے لیکن خود پر ظلم ہونے دینا بھی گناہ ہے۔ وہ حضرات جو خواتین کو کمزور اور لاچار دیکھنا پسند کرتے ہیں ان سے عرض ہے کہ ہمیں ناتواں نہ سمجھیں، ہم ناتواں نہیں ہیں!