عبیداللہ اور اونٹ کی ‘بلیک اینڈ وائٹ’ کہانی
بہت سے لوگ سابق امریکی صدر لنڈن بی جانسن اور بشیر ساربان کی کہانی سے واقف ہوں گے، جب 1961 میں لنڈن بی جانس (جو اُس وقت نائب صدر تھے) نے کراچی میں ایک اونٹ گاڑی کو دیکھا اور پھر خود جاکر اسے چلانے والے بشیر احمد سے ہاتھ ملایا اور گفتگو کی لیکن بلوچستان کے اونٹ بان عبید اللہ کی زندگی میں کوئی ‘لنڈن بی جانسن’ نہیں۔
دھان پان سے جسم اور سنجیدہ چہرے والے عبید اللہ کی زندگی بلوچستان کے دیہی علاقوں کی نوجوانوں جیسی ہی ہے، جو وندر، لسبیلہ میں اپنے والدین ، دوبہنوں، بیوی اور بیٹی کے ساتھ رہتا ہے۔
وہ اور اس کا اونٹ روزانہ کبھی 56 اور کبھی 108 کلومیٹر کا پیدل سفر کرتے ہیں کیونکہ اسے روز یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ روزی روٹی کے لیے گڈانی کے ساحل جائے یا سومیانی کا رخ کرے۔ سومیانی پر بڑے لوگ آتے ہیں اور پیسے بھی اچھے ملتے ہیں، لیکن اصل گہماگہمی گڈانی کے ساحل پر دیکھنے کو ملتی ہے۔
وہ روز صبح 9 بجے اپنا اور اونٹ کا کھانا لے کر نکل جاتا ہے اور اُس کی واپسی رات گئے ہوتی ہے۔ عبیداللہ کی صبح سے شام، ساحل کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک آنے جانے میں گزر جاتی ہے۔ وہ کتنا پیدل چلتا ہے اس نے کبھی حساب نہیں لگایا۔گھر سے ساحل کا فاصلہ سوا گھنٹے میں طے ہوتا ہے، پھر پورے دن وہ کتنے قدم چلتا ہے، اُس نے کبھی گنے ہی نہیں۔
عبیداللہ کی کوئی لگی بندھی دیہاڑی نہیں ہے، کبھی 2 ہزار سے اوپر اور کبھی ہزار روپے بھی جمع نہیں ہو پاتے اور گھر والوں کو کھانا بھی اسی حساب سے نصیب ہوتا ہے۔
اُس نے بتایا، ‘اچھی کمائی ہوگئی تو اپنے گھر والوں کے لیے کچھ اچھا لے جاتا ہوں اور اپنے اونٹ کے لیے بھی تازہ اور سوکھی گھاس مل جاتی ہے، ورنہ ہمارا کیا ہے وہی دال روٹی چلتی رہتی ہے۔ ہاں اسکول کی چھٹیوں میں اور اتوار والے دن روزی بڑھ جاتی ہے اور روز کے خرچے کے بعد بھی کچھ ہاتھ میں بچ جاتا ہے، لیکن شہر میں حالات خراب ہوں تو کوئی یہاں نہیں آتا اور ہم انتظار کرتے رہ جاتے ہیں اور خالی ہاتھ گھر جانا پڑتا ہے’۔
عبیداللہ کی صبح سے شام، ساحل کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک آنے جانے میں گزر جاتی ہے، وہ کتنا پیدل چلتا ہے اس نے کبھی حساب نہیں لگایا۔
عبیداللہ کے گھر میں 3 اونٹ ہیں، ایک اس کا، ایک اس کے والد کا اور ایک حال ہی میں خریدا گیا اونٹ کا بچہ، جو تین سے چار سال میں تیار ہو جائے گا۔ اپنے اونٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اُس نے بتایا کہ ‘یہ اونٹ میرے پاس پچھلے چار سال سے ہے۔ اونٹ پالنا آسان کام نہیں، جان مارنی پڑتی ہے، خیال رکھنا پڑتا ہے۔ یہ بھی کسی بچے سے کم نہیں، بچوں کی طرح ضد کرتا ہے اور پھر میری بات مان بھی جاتا ہے’۔
عبیداللہ گھر کے قریب اسکول نہ ہونے کی وجہ سے پڑھ لکھ نہیں سکا۔ اسے پڑھنے کے لیے چچا کے پاس ‘حب’ بھیجا گیا، جہاں اس نے گورنمنٹ بوائز اسکول میں تیسری جماعت تک پڑھا۔ اسکول میں استاد کبھی کبھار ہی آتے تھے اور دوسرا اس کا دل بھی نہیں لگتا تھا، اس لیے وہ واپس وندر آگیا، جس کا اسے اب تک افسوس ہے۔
اس کی بلیک اینڈ وائٹ زندگی میں کوئی رنگین تصویر نہیں۔ ہاں اس کی سادہ سی زندگی میں محنت اور جفاکشی کے رنگ جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ اب وہ خواہش مند ہے کہ اپنی بیٹی اور بہنوں کی زندگیاں اچھے اور طرح طرح کے رنگوں سے بھردے۔ عبیداللہ نے مسکراتے ہوئے کہا، ‘چھوٹی بہن اسکول جاتی ہے اور بیٹی بھی خوب پڑھے گی۔ بس ان کی زندگیوں میں بہت سی ادھوری خواہشیں نہ رہ جائیں، ویسے تو ادھورے خواب ہمارا مقدر ہیں اور ہم اس پر راضی بھی ہیں’۔
اس نے اپنی ماضی کی کہانی سناتے ہوئےمزید بتایا کہ وہ تھوڑا بڑا ہوا تو ابا کے ساتھ اونٹ کی دیکھ بھال کرنے لگا۔ کبھی اسے چارہ ڈال رہا ہے، کبھی دودھ نکال رہا ہے۔ سات سال کا ہوا تو اپنے والد کے ساتھ ساحل آنے لگا اور 13 سال کی عمر سے اپنےاونٹ کی نکیل پکڑلی، جو بقول اُس کے اب موت کے ساتھ ہی چھوٹے گی۔ یہی نہیں اس کا 70 سالہ باپ عبدالرحمان بھی اب تک اونٹ چلاتا ہے کیونکہ اسے ابھی زندگی کی گاڑی کھینچنی ہے۔ اُس کی تین بہنوں کی شادی ہوچکی ہے، جنھوں نے اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی، ہاں قرآن ضرور پڑھ رکھا ہے۔
عبیداللہ نے بتایا، ‘بلوچستان کے کئی علاقوں میں اب لڑکوں اور لڑکیوں کے اسکول اور کالج کھل گئے ہیں، جہاں لڑکے تو پڑھنے جا رہے ہیں، لیکن لڑکیاں اب بھی کم جاتی ہیں۔ حب میں ایک بہت اچھا اور بڑا اسکول سٹیزن فاؤنڈیشن والوں نے بھی کھولا ہے، لیکن وہ لڑکوں کا اسکول ہے، انہیں لڑکیوں کا بھی کھلنا چاہیے’۔
عبیداللہ کی بلیک اینڈ وائٹ زندگی میں کوئی رنگین تصویر نہیں۔ ہاں اس کی سادہ سی زندگی میں محنت اور جفاکشی کے رنگ جا بجا بکھرے پڑے ہیں
ساتھ ہی اس کا کہنا تھا، ‘اگر لڑکیوں کا بڑا اور اچھا اسکول کھل گیا تو میں حب چلا جاؤں گا۔ وہاں بڑا ہسپتال بھی ہے، ڈاکٹر بھی آتی ہے۔ میری بیٹی کبھی کبھی بیمار ہو جاتی ہے۔ وہ کمزور ہے، اُس نے ابھی چلنا شروع کیا ہے، لیکن گر جاتی ہے۔ میری بچی کی پیدائش پر میری بیوی کی طبعیت بہت خراب ہوگئی تھی۔ حب سول ہسپتال کی بڑی ڈاکٹر صاحبہ نے کہا تھا کہ اس کے جسم میں خون نہیں۔ بچی اور وہ مر بھی سکتی تھی، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ سب خیریت رہی۔ ڈاکٹر صاحبہ نے کہا ہے کہ میں بیوی کو ہسپتال لے کر آؤں، لیکن میں تو یہاں آجاتا ہوں، پھر گاڑی کا بھی مسئلہ ہے’۔
اُس نے سوال کیا، ‘ہم ساربانی نہ کریں تو اور کیا کریں۔ یہاں کوئی اور کام نہیں۔اکثر آدمی کوئی کام ہی نہیں کرتے۔ لوگ پریشان ہیں۔ شہر جانا سب کے لیے آسان نہیں۔ دل چاہتا ہے کہ اپنے علاقوں میں ہی کام ملے اور وہیں اسکول اور ہسپتال کھلیں۔ ہمارے بچے پڑھیں۔ پھر سب بدلتا جائے گا۔
عبید اللہ کی یہ امید بھری سوچ ہی بہتر کل کی نوید ہے۔ دعا ہے کہ اس کی زندگی کی قبا میں لگے مفلسی اور درد کے پیوند دور ہوسکیں۔