لاہور(سعید چودھری)سپریم کورٹ نے سعودی عرب میں اسلامی عسکری اتحاد کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کے بیرون ملک ملازمت کے این او سی کو غیر قانونی قراردے کر اس کی درستی کے لئے وفاقی حکومت کو ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے قراردیاہے کہ مقررہ مدت کے اندر قانون کے مطابق این او سی جاری نہ ہونے کی صورت میں جنرل (ر) راحیل شریف اپنی موجود ہ غیر ملکی ملازمت سے فوری طور پر سبکدوش تصور کئے جائیں گے ۔
چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار ،مسٹر جسٹس عمر عطاءبندیال اور مسٹر جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل بنچ نے یہ حکم ججوں اور سرکاری وعدالتی ملازمین کی دوہری شہریت کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے جاری کیا۔فاضل بنچ نے سرکاری ملازمت کے بعد خودیا اپنے خاندان کے افراد کے لئے دوہری شہریت حاصل کرنے والے افسروں کے لئے ڈیڈ لائن مقررکرنے کا حکم بھی دیاہے ،جس کے اندر انہیں دوہری شہریت یا ملازمت میں سے ایک چھوڑنی ہوگی۔فاضل بنچ نے حکومت دوہری شہریت کے حوالے سے پیرامیٹرز اور راہنما اصول طے کرنے کا حکم دیتے ہوئے قراردیا کہ اہم سرکاری عہدوں پر دہری شہریت والے افسران کو تعینات نہیں ہوناچاہیے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں دوہری شہریت کے حامل یاپاکستان کی شہریت نہ رکھنے والے سرکاری ملازمین اور پاکستان کی شہریت نہ رکھنے والے پاکستانی نژاد افراد کے خلاف کارروائی کی ہدایت کے علاوہ حکومت کو ضروری قانون سازی کے لئے راہنما اصول بھی فراہم کئے ہیں۔عدالت نے 29ستمبر 2018ءکو اس کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعداپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا جو آج سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں سنایا گیا۔فاضل بنچ نے 52صفحات پر مشتمل اپنے اس فیصلے میں آئین ،شہریت ،سرکاری ملازمت اور نیشنل ڈیٹا بیس سمیت مختلف قوانین کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد قراردیا ہے کہ کئی معاملات ایسے ہیں جن کی عدالتی تشریح کے ذریعے دادرسی ممکن نہیں ہے جب تک کہ پارلیمنٹ ان پر قانون سازی نہ کرے۔عدالت نے جنرل (ر)راحیل شریف کے حوالے سے قراردیا ہے کہ ان کا این او سی قانون کے مطابق نہیں ہے ، انہیں بیرون ملک ملازمت کے لئے جی ایچ کیو اور وزرات دفاع نے این او سی جاری کیا تھا جبکہ قانون کے تحت سابق سرکاری ملازم کو صرف وفاقی حکومت این او سی جاری کرسکتی ہے ،اس این او سی کے بغیر کوئی سابق سرکاری ملازم کسی غیر ملکی حکومت یا ایجنسی کی ملازمت نہیں کرسکتا۔عدالت قراردے چکی ہے کہ حکومت سے مراد وفاقی کابینہ ہے ،اٹارنی جنرل نے اس معاملے کا جائزہ لینے کے لئے عدالت سے مہلت طلب کی تھی ،اب سیکرٹری دفاع کو حکومت سے این او سی کی بابت ایک ماہ کی مہلت دی جاتی ہے اگر مقررہ مدت کے اندر قانون کے مطابق این او اسی جاری نہیں کیا جاتا تو جنرل (ر) راحیل شریف بیرونی ملازمت سے سبکدوش تصور کئے جائیں گے۔
عدالت نے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا کے حوالے سے قراردیاہے کہ انہوں نے عدالت میں سرٹیفکیٹ پیش کیا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات یا کسی بھی دوسرے ملک میں ملازمت نہیں کررہے ۔عدالت نے اپنے فیصلے میں ہدایت کی کہ وفاقی حکومت سابق سرکاری ملازمین کی غیر ملکی حکومتوں اور ایجنسیوں میں نوکریوں کی سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ کو پیش کرے۔عدالت نے قراردیا کہ قانون کے تحت امریکہ اوربرطانیہ سمیت19ممالک ایسے ہیں جن کے ساتھ پاکستانی دوہری شہریت رکھ سکتے ہیں ،ان کے علاوہ کسی دوسرے ملک کے ساتھ دوہری شہریت کی گنجائش نہیں ۔عدالت نے قراردیا کہ موجودہ قوانین کے تحت ایسے پاکستانی جو مذکورہ 19ممالک کے سواکسی دوسرے ملک کے ساتھ دوہری شہریت رکھتے ہیں ،وہ پاکستان میں ملازمت نہیں کرسکتے تاہم وہ حکومت کے زیر انتظام خودمختار اور نیم خود مختار اداروں میں ملازمت کرسکتے ہیں۔اس حوالے سے وفاقی حکومت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ راہنما اصول اور حدود کا تعین کریں۔پاکستانی نژاد لیکن پاکستان کی شہریت نہ رکھنے والے افراد غیر ملکی تصور کئے جائیں گے ،انہیں پاکستانی نژاد ہونے کا جو نادرا کارڈ جاری کیا جاتاہے اس کے تحت انہیں مختلف استحقاق حاصل ہے لیکن یہ ورک پرمٹ نہیں ہے ،انہیں پاکستان میں ملازمت کرنے کے لئے غیر ملکیوں کی طرح پاکستانی حکومت سے پرمٹ حاصل کرنا ہوگا۔عدالت نے قراردیا کہ دوہری شہریت کا حامل کوئی پاکستانی مسلح افواج کے اداروں میں ملازمت نہیں کرسکتا،اسے فوج کی ملازمت سے قبل دوہری شہریت چھوڑنا ہوگی۔عدالت نے قراردیا کہ دوران ملازمت غیرملکی شہریت لینا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ملازمین کی بدنیتی کو ظاہر کرتا ہے، یہ لوگ دوہری شہریت لے کر سروس کے دوران یا ریٹائرمنٹ کے بعد بیرون ملک سیٹل ہونے کا پلان بنا تے ہیں۔دوہری شہریت رکھنے والے یہ لوگ پاکستان کے اعتماد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں ،اس کے لئے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک جیسے قانون اور ضابطے بنائیں۔عدالت نے قراردیا کہ یہ ایک طے شدہ اصول ہے کہ وہ پاکستانی جو دوسرے ملک کی شہریت اختیار کرتاہے ،وہ پاکستان کا شہری نہیں رہتا۔عدالت نے دوہری شہریت کے حوالے سے کیس میں تین درجہ بندیاں کیں ،پہلے درجہ میں دوہری شہریت کے حامل اشخاص کو رکھا گیا ،دوسرے درجہ میں ان لوگوں کو رکھا گیا جو پاکستانی نژاد ہیں لیکن پاکستانی شہری نہیں جبکہ تیسرے درجہ میں ان لوگوں کو رکھا گیا جن کے بیوی بچے دوہری شہریت یا غیر ملکی شہریت کے حامل ہیں۔
عدالت نے قراردیا کہ متعلقہ19ممالک کے ساتھ دوہری شہریت والے ایسے ہی ہیں جیسے وہ پاکستان کے شہری ہوںجبکہ دیگر غیر ملکی تصور کئے جائیں گے۔عدالت نے قراردیا کہ پاکستانی نژاد لیکن غیر شہری افراد کے حوالے سے بھی قانون سازی کی ضرورت ہے،یہ لوگ پاکستان میں سرکاری ملازمت نہیں کرسکتے تاہم ان کے معاملے کو ہر ادارے کے قانون کے مطابق فرداً فرداً دیکھا جاسکتا ہے ۔عدالت نے قراردیا کہ ان لوگوں کو دیگر غیر ملکیوں کی طرح ملازمت کے لئے حکومت سے اجازت لیناہوگی۔عدالت کے علم میں آیاہے کہ پاکستانی نژاد غیر شہریوں کو بورڈ آف انویسٹمنٹ پرمٹ جاری نہیں کرتا کیونکہ یہ ایک عام تاثر ہے کہ پاکستانی نژاد ہونے کے نادرا کے کارڈ کے باعث ان لوگوں کو پرمٹ کی ضرورت نہیں ،یہ تاثر غلط ہے ۔عدالت نے حکم دیا کہ پاکستانی نژاد غیر شہریوں کے ورک پرمٹ کے بارے میں حکومت پاکستان ایک ماہ کے اندر حتمی فیصلہ کرے ،اس فیصلے تک موجودہ صورتحال برقراررہے گی۔عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس بات کا جائزہ لینے کی ہدایت کی ہے کہ دوہری شہریت والوں کو پاکستان میں سرکاری ملازمت کا حق دیا جائے یا نہ دیا جائے۔حکومت کو ہر سال پارلیمنٹ میں ایسے سرکاری ملازمین کی فہرست پیش کرنی چاہیے جو خود یا ان کے بیوی بچے دوہری شہریت رکھتے ہیں۔سرکاری خود مختار اور نیم خود مختار اداروں کے ملازمین کے حوالے سے ان کے نگران اداروں کو بھی ایسی فہرست بھیجی جانی چاہیے ۔عدالت نے قراردیا کہ غیرملکی شہریت والے سرکاری ملازمین ریاست پاکستان کے مفاد کیلئے خطرہ ہیں، غیرپاکستانیوں کو پاکستان میں عہدے دینے پر مکمل پابندی ہونی چاہیے، غیرپاکستانیوں کو عہدے دینے پر مکمل پابندی بارے پارلیمنٹ واضح فیصلہ کرے، ضروری حالات میں کسی غیرپاکستانی کو عہدہ دینے سے قبل متعلقہ کابینہ سے منظوری لی جائے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اور اسے ہرسال پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی میں پیش کرنا چاہیے ۔اس کیس میں پیش کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق 1116افسر غیر ملکی شہریت رکھتے ہیں ،ان میں سے 1098دوہری شہریت جبکہ 18غیر ملکی شہریت کے حامل ہیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ 1249ایسے افسر ہیں جن کے بیوی بچے دوہری شہریت یا غیر ملکی شہریت رکھتے ہیں۔اس معاملے کی ایف آئی اے نے تحقیقات کی تھیں ،ایف آئی اے کی طرف سے بتایا گیا کہ 261افسروں نے اپنی دوہری شہریت جبکہ6افسروں نے غیر ملکی شہریت کے بارے میں نہیں بتایاتھا۔عدالت نے اپنے فیصلے میں ان 19ممالک کی فہرست بھی شامل کی ہے جن کے ساتھ پاکستانی دوہری شہریت رکھ سکتے ہیں،ان میں برطانیہ، فرانس ، اٹلی،بیلجیم ،آئس لینڈ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ،کینیڈا، فن لینڈ، مصر، اردن ،شام ،سویٹزرلینڈ ،نیدرلینڈز ،امریکہ،سویڈن ،آئرلینڈ،بحرین اور ڈنمارک شامل ہیں۔عدالت نے قراردیا کہ یہ درست ہے کہ مذکورہ ممالک کی شہریت لیتے وقت وہاں وفاداری کا ڈیکلریشن دینا پڑتا ہے لیکن ہمارے قانون میں ان ممالک کے ساتھ دوہری شہریت کی اجازت ہے ۔فاضل بنچ نے قراردیا کہ حکومت اس حوالے سے پیرامیٹرز کے تعین کے لئے قانون سازی کرے تاہم قانون سازی تک موجودہ قانون براقراررہے گا۔