نیویارک( بی ایل ٰآئی)
تمام تر طبی ترقی کے باوجود اب بھی ترقی یافتہ ممالک میں ایسے مریض موجود ہیں جو قابل ترین ڈاکٹروں کو طبی تشخیص میں کامیابی سے دور رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں قائم بین الاقوامی ماہرین کی ایک ٹیم بنائی گئی ہے جسے ’غیرتشخیص شدہ امراض کا نیٹ ورک‘ یا یو ڈی این کا نام دیا گیا ہے۔
2014 میں قائم اس نیٹ ورک نے اب تک 31 ایسی کیفیات کی وضاحت کی ہے جنہیں لاعلاج اور ناقابلِ تشخیص مرض سمجھا جاتا رہا تھا۔ کئی ناقابلِ حل کیسوں کی وضاحت کے بعد ماہرین مزید بیماریوں پر بھی غور کررہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں بعض طبی کیفیات اور امراض کے کیسز سامنے آتے ہیں جو خود ماہر طبیبوں کو حیران کردیتے ہیں۔ انہیں غیر حل شدہ طبی کیسز کہا جاتا ہے۔
نیٹ ورک میں شامل مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے قابل ڈاکٹر اور ماہرین، مرض کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں جن میں علامات، بایوکیمسٹری، جینیات اور دیگر علامات کو دیکھا جاتا ہے۔ یہ ڈاکٹر کسی سراغرساں کی طرح مرض کی جڑ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کےلیے جدید ترین ٹیکنالوجی اور ادویہ بھی استعمال کی جاتی ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ اس کےلیے باقاعدہ طور پر ایسے مریضوں کو تلاش کیا جارہا ہے۔ اس کے اخراجات مختلف اداروں کی مالی مدد سے پورے کیے جاتے ہیں اور مریض پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا۔ یو ڈی این کے مطابق مریض کو ایک جگہ بلاکر تمام ڈاکٹر اس کے پاس پہنچتے ہیں۔
اپنے اعلان کے بعد اس تنظیم کو 2780 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ ان میں سے 1,179 قبول کرلی گئیں اور مزید 907 ابھی غور کے مراحل میں ہیں۔ یو ڈی این کے مطابق انہوں نے 382 پراسرار معاملات کو 35 فیصد تک حل کرلیا ہے۔ ایک کیس کی 80 فیصد تشخیص مکمل ہونے کے بعد تنظیم قابلِ عمل معلومات فراہم کرے گی جن میں دواؤں یا علاج میں تبدیلی، نئے ٹیسٹ اور مریض کے خاندان کی اسکریننگ وغیرہ شامل ہیں۔
اب تک یہ تنظیم 31 نئی کیفیات یا بیماریوں کو نوٹ کرچکی ہے۔ بعض مریض اپنی کیفیت کی تفصیلات جان کر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ مرض کا پتا چل جانا بھی ان کےلیے اطمینان کی وجہ بنتا ہے۔ ایک مریض کے جسم میں طویل عرصے سے لیکٹک ایسڈ جمع ہورہا تھا جو جان لیوا ثابت ہوسکتا تھا۔ آخری مرحلے میں مائٹوکونڈریائی جین میں کچھ تبدیلی نوٹ کی گئی اور اس کا علاج ممکن ہوا۔
ماہرین پرامید ہیں کہ اس سے عالمی سطح پر ان کئی امراض کے علاج میں بہت مدد ملے گی جو ایک عرصے سے لاعلاج تصور کیے جاتے رہے ہیں۔