کاشف علی
تعلیم ہر انسان کی بنیادی ضرورت اور حق ہے۔یہ کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی کی ضامن ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ جن اقوام نے تعلیم کو ترجیح دی، ان کا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ ہماری طرح تیسری دنیا کے ممالک بھی اب اپنے نوجوانوں کو آگے بڑھانے کے لیے انہیں بہتر سے بہتر تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کر رہے ہیں، تاکہ وہ خود مختار ہوں۔ ہمارے ملک میں جہاں نسل نو کو دیگر مصائب کا سامناہے وہیں،ان کا بنیادی مسئلہ معیاری تعلیم کاحصول بھی ہے، کچھ نوجوان ایسے ہوتے ہیں، جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک جانا چاہتے ہیں، تاکہ دنیا کے صف اوّل کے تعلیمی اداروں میںپڑھ سکیں، لیکن ان کی اس خواہش کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مالی وسائل کا نہ ہوناہے، کچھ تعلیمی ادارے تو اسکالر شپ دیتے ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ ہر طالب علم کا نام اسکالر شپ حاصل کرنے والے طلباء میں آئے۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ اپنی مدد آپ کے تحت بھی اسکالر شپ کے لیے اپلائی کر سکتے ہیں، یاد رکھیں تعلیم اور تحقیق کے شعبوں میں تلاش کرنے والا، جستجوکرنے والاہمیشہ فائدے میں رہتا ہے۔
اسکالرشپ حاصل کرنے کے لیے دوانتہائی اہم باتوں کا خیال رکھنا چاہیے، ایک توجہ اور دوسری مسلسل کوشش۔ توجہ اس لئے اہم ہے کہ جیسے ہی اسکالرشپ تلاش کرنے کے لیےانٹر نیٹ پر تلاش شروع کرتے ہیں، توجہ ہٹانے کے لیے درجنوں اشتہاری کمپنیاں میدان میں آجاتی ہیں،جنہیں بس ایک مرتبہ کلک کرنے کی ضرورت ہے اور پھر سارا دھیان بھٹک جاتا ہے، جیسے آن لائن ایم اے، بی ایس، پی ایچ ڈی؟ کرنے کی آفرز، جو قابل اعتماد نہیں ہوتیں۔
یہاں اس بات کا دھیان بھی رکھیں کہ بیرون ملک بھی کئی ایسے لوگ ہیں، جو یونیورسٹی کی لالچ دے کر پیسے اینٹھتے ہیں، جب آپ اپنی یا اپنے والدین کی جمع پونجی لگا کر وہاں پہنچتے ہیں، تو سوائے مایوسی کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔اس لیے ایسے خوش کن اعلانات اوراشتہارات پڑھنے اوران پرعمل کرنے سے گریزکریںکیوں کہ یہ صرف وقت کا ضیاع ہے،جب آپ کوئی اسکالرشپ تلاش کرنے بیٹھیں تو صرف اسکالرشپ لکھ کرتلاش مت کریں، اس سے سیکڑوں، ویب سائیٹس کھل جائیں گی، توجہ بھی ہٹ جائے گی۔ اپنے مضمون ، مارکس یا گریڈز کے حساب سے اسکالر شپ تلاش کریں ، بہتر یہ ہوگا کہ پہلے آپ کچھ ممالک کا انتخاب کرلیں، جہاں کی جامعات میں آپ داخلہ لینے کے خواہش مند ہیں ، پھر اس حساب سے ملک کے نام کے ساتھ اسکالر شپ کے بارے میں تلاش کریں۔ زیادہ ترنوجوان جرمنی میں اسکالر شپ پر پڑھنے کے لیے جاتے ہیں، کیوں کہ وہاںتعلیم انتہائی سستی اور اسکالر شپ کے بے شمار مواقع میسر ہیں۔ جرمنی ہرسال کئی پاکستانی طالب علموں کومختلف مضامین میں اسکالرشپ دیتا ہے۔کسی بھی ملک میں اسکالر شپ کی درخواست دینےکے بعد وہاں کی زبان سیکھنا زیادہ بہتر ہے، تاکہ بول چال میں آسانی ہو، ویسے تو پوری دنیا میں انگریزی زبان ہی بولی اور سمجھی جاتی ہے، مگر پھر بھی مقامی زبان سیکھ لینا بہتر ہے۔ اسکالرشپ کا ایک بڑا ماخذ ہائیرایجوکیشن کمیشن کی ویب سائٹ ہے۔ اگر آپ وقتاً فوقتاً یہ سائٹ وزٹ کرتے رہیں، توآپ ملکی و غیر ملکی اسکالرشپس کے بارے میں باخبر رہ سکتے ہیں۔
اسکالرشپ کے لیے کسی ایک ملک کی جامعات سے نہیں بلکہ دو، تین ممالک سے آغاز کریں، تاکہ اگر اب منتخب ہوجائیں تو آپ کے پاس من پسند جامعہ کا انتخاب کرنے کا حق ہو،نمونے کے طور پر ایک درخواست انگریزی میں بنالیں،جس میں اپنا مدعا صاف صاف بیان کریں کہ آپ کو کس کورس،کلاس،کے لیےکتنے عرصے کے لیےاسکالرشپ چاہیے۔ درخواست کے ساتھ اپناسی وی ضرور بھیجیں۔ مختلف یونیورسٹیوں کی سائیٹ چیک کرتے ہوئے فنانشل ایڈ والی سرخی پرکلک کریں اور تفصیلات جانیں۔ اگر وہاں سے معلومات نہ ملیں یا سائٹ پرفنانشل ایڈوالی سرخی نہ ملے تو انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ والی سرخی کوکلک کریں۔ آپ مختلف یونیورسٹیوں کی ویب سائیٹ چیک کرتے ہوئے اسکالرشپ،فیلوشپ پربھی کلک کرسکتے ہیں۔ ویب سائٹ کھلتے ہی آپ سے خودکو رجسٹرکرانے کوکہا جاتا ہے، چناں چہ یہاں اپنی رجسٹریشن کرائیں۔ فارم بھرتے ہوئے نامکمل معلومات مت دیں بلکہ پوری معلومات دیں۔اپنے بارے میں ہربات درست بتائیں۔ حصول علم کے لیےباہر جا رہے ہیں، اس کام کاآغازہی دھوکہ دہی سے مت کریں۔ بعض یونیورسٹیوں نے پرسنل اسٹیٹ منٹ پوچھی ہوتی ہے۔ اس میں اپنی کام یابیاں اور عزائم بتائیں۔ پرسنل اسٹیٹ منٹ میں ایسی معلومات مت دیں، جوآپ کے سی وی میں آسانی سے دیکھی جاسکتی ہوں۔یہ آپ کی شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے۔ اسکالرشپ دینے والی یونیورسٹی، ادارہ، ریسرچ سینٹر،تنظیم یا فرد آپ کا سی وی اوراسٹیٹ منٹ دیکھ کرہی اسکالرشپ دینے یا نہ دینے کافیصلہ کرتا ہے۔ دنیاکی کئی یونیورسٹیوں میں اتھلیٹکس اسکالرشپ کی سہولت بھی ہوتی ہے، یہ ایسے نوجوانوں کو دی جاتی ہیں، جوکسی کھیل میں اعلیٰ مہارت رکھتے ہوں، اسکالرشپ کے لیے کم از کم ایک سال پہلےمنصوبہ بندی کریں۔ اپنی انگریزی کوبہترین بنائیں ،کیوں کہ دنیا بھر میں انگریزی زبان میں اعلیٰ مہارت کوہی ذہانت کاپیمانہ سمجھاجاتا ہے۔ امریکا ، برطانیہ اوریورپ کی یونیورسٹیاں آپ سے انگریزی میں مہارت کا سرٹیفیکیٹ مانگتی ہیں۔ اس کے لیے آپ کوجی آرای (گریجوایٹ ریکارڈایگزامینیشن) یا ٹوفل (ٹیسٹ آف انگلش ایز فارن لینگویج) دیناہوتاہے۔ امریکی یونیورسٹیاں عام طورپراعلیٰ تعلیم کے لیے جی آرای میں ایک سوچھتیس اسکورمانگتی ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہمارے ملک میں بھی کم و بیش تما م جامعات اور کالج ضرورت مند اور ذہین طالب علموں کو اسکالرشپ دیتے ہیں۔اس حوالے سے آپ اپنے شعبے کے ہیڈ یا اسٹوڈنٹس افیئرز کے شعبے سے بات کرتے ہیں، وقتاً فوقتاً ا س حوالے سے معلومات حاصل کرتے رہیں۔ باخبر رہنازندگی میں کام یابی کے امکانات بڑھا دیتا ہے۔ انفارمیشن کوبھی ایک ذریعہ ہی سمجھیں، تعلیمی اداروں کے علاوہ بھی کچھ ادارے یہاں پر اسکالرشپ دیتے ہیں، انہیں بھی تلاش کریں، ان پر نظر رکھیں ۔اگرآپ کی انگریزی کمزور ہے، تو سب سے پہلے اسے بہتر کرنے کی کوشش کریں، تمام ممالک میں اسکالرشپ تلاش کرنے کے بہ جائے دنیاکی پہلی بہترین سویونیورسٹیوں کاانتخاب کریں اور پھراگلی سو۔ہمیں امید ہے کہ یہ طریقے آپ کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے اور اپنی منزل تک پہنچنے میں معاون ثابت ہوں گے۔
نوجوان دوستو! ایک اہم اور بنیادی بات یہ ہے کہ آپ کواگراسکالرشپ مل جائے، تواعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بیرون ملک ضرور جائیں، وہاں بہترین کار کردگی کا ثبوت بھی دیں، لیکن وہاں بسنے کا خیال مت لائیں، تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس اپنے ملک کی راہ لیجیے گا، کیوں کہ نسل نو اس ملک کا قیمتی سرمایہ ہے، اس قوم کو تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اشد ضرورت ہے،اگر وہ ہی اس سے منہ موڑ کر دیار غیر میں بس جائیں گے ، تو ہمارا وطن عزیز کیسے ترقی کرے گا۔