یالے یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق اس وقت زمین پر 30کھرب سے زائد درخت ہیں جن میں تیزی کے ساتھ کمی آرہی ہے۔
دنیا کی آبادی 6ارب ہونے کی وجہ سے 422 درخت ایک شخص کے حصے میں آتے ہیں، برازیل میں 301ارب درخت پائے جاتے ہیں ،جس کے حساب سے 1494 درخت فی کَس آتے ہیں، کینیڈا میں 318ِارب یعنی 8953 درخت فی کَس، چین میں 139 ارب یعنی 102 درخت فی کَس، امریکا میں 228ارب درخت یعنی 716 درخت فی کس ، بھارت میں 35ارب یعنی 28 درخت فی کَس آتے ہیں۔
روس 641 ارب درختوں کے حوالے سے سر فہرست ہے جہاں ایک شخص کے حصے میں 4461 درخت آتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ایک رپورٹ کے مطابق ایک ارب کے قریب درخت پائے جاتے ہیں جن میں سے ایک پاکستانی کے حصے میں صرف 5 درخت آتے ہیں۔
سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کی 2008ء کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کے صرف 7فیصد رقبے پر درخت تھے جو اب مزید کم ہو کر 3 فیصد حصے پر رہ گئے ہیں۔
دو سال سے جاری گرین بس پروجیکٹ کے تحت بھی شہر قائد میں متعدد درخت کاٹے گئے ہیں، درختوں کو مسلسل کاٹنے کا عمل کراچی شہر کے ماحول اور درجہ حرارت پر اثر انداز ہوا ہے اور گرم موسم اس کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔
درخت نہ ہوں تو موسم گرم اور گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہوسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی سال سے کراچی میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔
جان لیوا ہیٹ ویو اور موسمیاتی تبدیلیوں کےپیش نظر یہاں زیادہ سے زیادہ درخت اگانے کی ضرورت ہے، خاص طور پہ ماحول دوست درخت اگانے کی اشد ضرورت ہے۔
پھلدار درختوں میں بیر، سوہانجنا، چیکو، جنگل جلیبی، لسوڑا، شریفہ، گوندگی وغیرہ ، پھولوں والے درخت میں املتاس، گل مہر، لگنم جب کہ گھنے اور سایہ دار درختوں میں نیم، پیپل،بن ین، سریس بکائن شامل ہیں جنہیں لگا کر ناصرف شہر کی آلودگی کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے بلکہ بڑھتی ہوئی گرمی جس میں آنے والوں سالوں میں اضافے کا شدید خدشہ ہے اسے بھی کم کرنے میں یہ درخت مددگار و معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
آج جن بچے کھچے درختوں کے سائے میں ہم گرمی سے گھبرا کر پناہ لیتے ہیں وہ ہمارے بزرگوں نے ہماری بھلائی کے لیے لگائے تھے، اگر آج ہم نے یہ کام نہ کیا تو ہماری اگلی نسل ہیٹ ویو اور اس کے نتیجے میں ہونے والے مسائل کا شکار ہو کر بد تر یا شاید بدترین زندگی گزارنے پر مجبور ہو۔
رمضان وہ واحد مہینہ ہے جب سارا سال پھل نہ کھانے والوں کو بھی مہنگے ہونے کے باوجود پھل میسر ہوتے ہیں، آپ جب بھی فروٹ کھائیں تو ان کے بیج محفوظ کرلیں، آپ کے گھر میں جگہ نہیں تو شہر میں ایسی کسی بھی جگہ جہاں پودے پروان چڑھ سکیں وہاں یہ بیج ڈال دیں جن میں سے کوئی نہ کوئی یا کئی بیج تو بارآور ہوں گے اور آپ کے حصے کا درخت لگ جائے گا جس کا سایہ اور پھل لوگوں کو نفع دے گا، ہماری اگلی نسلوں کو اس کا فائدہ ملے گا اور صدقہ جاریہ مفت میں اعمال کے اکاؤنٹ میں جمع ہوگا۔
گھر میں درخت لگانے کی جگہ نہیں یا فلیٹ میں رہائش ہے تو گھر میں گملے لگائیں، پودینے گیندے اور اسی نوع کے کئی پودے گملوں میں ہونے سے گھر میں مچھر نہیں آتے، ساتھ ہی گھر کی اور اردگرد کی آب و ہوا اور ٹمپریچر بھی بہتر ہوگا، صاف آکسیجن ملے گی، آپ دیکھیں گے کہ گھر سے کئی بیماریوں کا خاتمہ بھی ہوا ہے۔
ایک شخص نہیں گھر کا ہر فرد ان پودوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لے اور اسے ادا کرے، اگر ایک گھر کی جابن سے ایک پودا لگادیا جائے، گھر کے اندر یا باہر تو پورا گھرانہ اس ایک پودے کے درخت بننے تک اس پودے یا درخت کو گھر کے فرد کی طرح اس طرح دیکھ بھال کریں جیسے گھر میں کسی ننھے بچے کی دیکھ بھال اور نشوونما اس کے بڑا ہونے تک کی جاتی ہے۔
جاپانی ہر قسم کے درختوں بشمول پھل دار درختوں کو چھوٹا کرکے گملوں میں لگاتے ہیں، اس عمل کو بونسائی کہا جاتا ہے، جس سے گزر کر درخت چھوٹا ہوکر گملے میں اگ جاتا ہے اور یہ چھوٹے درخت اگر پھل والے ہوں تو ان گملوں میں پھل بھی دیتے ہیں، اس بونسائی کے عمل کی تر بیت لینے کی ضرورت ہے، ظاہر ہے اس کیلئے جاپانی تو شاید نہ مل سکیں البتہ یو ٹیوب سے مدد لی جاسکتی ہے جہاں یقیناً بونسائی سکھانے کی ویڈیوز مل جائیں گی۔
ایک دور تھا کہ گھروں کے آنگن میں کم از کم ایک درخت ہوتا تھا اور کیاریوں اور گملوں میں پودوں کی بھرمار ہوتی تھی، گھروں میں بکری، مرغیاں وغیرہ پالی جاتی تھیں، یہ کسی گاؤں دیہات کی نہیں اسی شہر قائد کے چھوٹے چھوٹے گھروں کی بات ہے، پھر ایسا ہوا کہ دلوں میں گنجائش ختم ہو گئی، انسانوں کی، رشتوں کے احترام کی، ساتھ ہی پودوں اور درختوں کے حق پہ بھی اس گنجائش کے خاتمے نے ڈاکا ڈالا، اب اس گنجائش کو بحال کرنے کی ضرورت ہے، رشتوں کیلئے بھی، دیگر لوگوں کیلئے بھی اور درختوں پھولوں پودوں کیلئے بھی اور بکریاں نہیں تو ایک آدھ مرغی ہی پالیں، اس طرح ہم نہ صرف اس تباہ حال ماحول کو درست کر پائیں گے بلکہ اپنے بگڑے اور تباہ حال مزاج کو بھی سنوار اور سدھار کر رشتوں ناتوں کو بچا پائیں گے اور خاندانی نظام بھی بحال ہوسکے گا۔
فطرت سے دوری ہمارے مزاجوں پہ بھی اثر انداز ہوئی ہے اور بدمزاجی، چڑچڑا پن اور جھگڑالو مزاج فروغ پایا ہے، عدم برداشت پھیلی ہے، فطرت سے جڑنے سے یقیناً مزاجوں پر بھی اچھے اثرات مرتب ہوں گے، اس سب کیلئے ضروری ہے کہ حکومتی سطح سے لے کر گلی اور محلے کی سطح تک، سب فن باغبانی کی تربیت کو عام کریں، کوئی پودا کیسے لگایا جاتا ہے، بیج کیسے نشوونما پا کر ننھے پودے کی شکل اختیار کرتا ہے اور پھر کس طرح اور کتنے عرصے بعد وہ تناور درخت میں تبدیل ہوتا ہے، اس سب کیلئے اسے کس ماحول ہوا، کھاد اور روشنی کی ضرورت ہوتی ہے، اس کیلئے تربیت بے حد ضروری ہے۔
مذہبی و سیاسی جماعتیں اور فلاحی ادارے بھی اس سمت توجہ دیں اور ناصرف درخت و پودے لگانے اور ان کی حفاظت کی ترغیب دیں بلکہ عام افراد کو اس ضمن میں فن باغبانی کی تربیت کی فراہمی پر بھی زور دیں، اس کیلئے یوٹیوب پر موجود ویڈیوز سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے، ان ویڈیوز کے کلپ، درخت و پودے لگانے کی ترغیب کی تحریریں سوشل میڈیا یعنی فیسبک اور واٹس ایپ پر شیئر کرکے اپنا حصہ ڈالیں اور سنیں اس کو پڑھ کر سر دھننے اور آگے شیئر کرانے پر ہی نہ رک جائیں بلکہ اس حوالے سے باقاعدہ کوئی عملی قدم بھی اٹھائیں، اپنے لیے، اپنے بچوں کیلئے اور آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے، صرف ایک پودا لگا کر۔