ٹوکیو:
تاریخ میں خوفناک ترین آتش فشانی کے واقعے کی وجہ بننے والا جاپانی آتش فشاں پہاڑ اب دوبارہ فعال ہوگیا ہے اور ماہرین نے اس کی ممکنہ ہولناکی سے خبردار کیا ہے۔
ماضی بعید میں یہ آتش فشاں ارضی تاریخ کی ہولناک تباہی کرچکا ہے۔ اب سے 7 ہزار سال قبل جنوبی جاپان کے مرکزی جزائر میں واقع اس آتش فشاں کے پھٹنے سے گرم راکھ 500 مربع کلومیٹر تک پھیل گئی تھی اور وسیع علاقہ تباہ ہوگیا تھا۔ اب سائنس دانوں نے اس کے گڑھے (کریٹر) کے نیچےجاری ہلچل کو نوٹ کیا ہے۔
جاپان میں کوبے یونیورسٹی کے ارضیات دانوں نے کیکائی کیلڈرا کے نیچے ایک ٹیلہ دریافت کیا ہے جس میں 32 مربع کلومیٹر کے لگ بھگ میگما (گرم مٹی) اور لاوا بھرا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں خطرناک تحریک جاری ہے جو بہت بڑے پیمانے پر تباہی پھیلاسکتی ہے۔
نیویارک ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے آتش فشاں پہاڑوں کے ماہر یوشی یوکی تاتسومی نے کہا کہ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ میگما کے گنبد نما ڈھیر سے نہ صرف میگما خارج ہوگا بلکہ اس بڑی مقدار میں باہر آئے گا کہ اسے ’سپر آتش فشاں‘ کہا جائے تو بہتر ہوگا۔
یوشی یوکی کے مطابق اگلے 100 برس میں اس آتش فشاں کے پھٹ پڑنے کا ایک فیصد خدشہ ہے جو بہت ہی کم خطرہ ہے لیکن اس سے 10 کروڑ سے زائد افراد متاثر اور بے گھر ہوسکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس طرح کے بڑے پیمانے والے آتش فشانی عمل اتنے عام تو نہیں ہوتے لیکن اس طرح کی قدرتی آفات اب بھی رونما ہوسکتی ہیں۔ ماضی میں یہ علاقہ دو مرتبہ بہت بڑی تباہی سے دوچار ہوچکا ہے جن میں سے ایک 95 ہزار سال قبل اور دوسری تباہی 1 لاکھ 40 ہزار سال قبل رونما ہوئی تھی جبکہ اس سے کم شدت کی تباہی 7 ہزار سال قبل رونما ہوئی تھی۔
ماہرین نے جدید آلات اور سونار کے ذریعے زیر آب اس مقام کا جائزہ لیا ہے اور یہ سلسلہ ہزاروں برس سے جاری ہے۔ اس ٹیلے نما پہاڑ کی اونچائی 600 میٹر ہے جو 10 کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔
تاتسومی کے مطابق اس مرحلے پر یہ اگلے بہت بڑے آتش فشانی عمل کی تیاری میں ہے اور یوں لگتا ہے کہ یہ اب کبھی پرسکون نہیں ہوگا اور اس کے نیچے سرگرمی بڑھتی جائے گی۔ اب ماہرین اگلے ماہ اس کی مزید سائنسی تحقیق کا آغاز کریں گے۔