اسلام آباد (بی ایل ٰآئی)قومی اسمبلی کی کی قائمہ کمیٹی انفارمیشن ٹیکنالوجی نے فوج کے زیر انتظام چلنے والے خصوصی مواصلاتی ادارے ’ایس سی او ‘ کو ملک بھر میں کمرشل بنیادوں پر کام کرنے اور پرائیوٹ ٹیلی کام آپریٹرز کے ساتھ مقابلہ کرنے کی پیشکش کو منظور کر لیاہے ۔ ایس سی او کی سربراہی پاک فوج کے افسر کر رہے ہیں اور ایس او سی ایک عوامی شعبے کی تنظیم ہے جو کہ آئی ٹی وزارت کے ماتحت کام کر رہی ہے۔اس کا قیام 1976میں آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان ٹیلی کام کی خدمات کو فراہم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کیلئے عمل میں لایا گیاتھا۔
نجی اخبار ’ڈان نیوز‘ کے مطابق قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ایم کیوایم کے رکن قومی اسمبلی سید علی رضا عابدی نے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کو خصوصی مواصلاتی ادارے کو سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ایس سی او کے ریگولیٹری افیئرز کے ڈائریکٹر ریٹائرڈ کرنل غلام حسین انجم نے مطالبہ کیا تھا کہ اس ادارے کو کمرشل بنیادوں پر کام کرنے کی اجازت دی جائے ۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کی حکومتی اور سینیٹ کی کمیٹی اسے کمرشل بنیادوں پر کام کرنے اورموبی لنک اور زونگ جیسی پرائیویٹ ٹیلی کام سیکٹر کے ساتھ مقابلے کرنے کی اجازت دینے کی مخالفت کر چکی ہے ۔
واضح رہے کہ ایس سی او کی سربراہی پاک فوج کے افسر کر رہے ہیں اور ایس او سی ایک عوامی شعبے کی تنظیم ہے جو کہ آئی ٹی وزارت کے ماتحت کام کر رہی ہے۔اس کا قیام 1976میں آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان ٹیلی کام کی خدمات کو فراہم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کیلئے عمل میں لایا گیاتھا۔گزشتہ دو برسوں سے ایس سی او کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جارہا تھا کہ اسے خود مختار بنایا جائے اور تجارتی بنیادوں پر کام کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ ملک بھر میں اپنی خدمات فراہم کر کے آمدن پیدا کر سکے ۔
پاکستان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی امجد خان نے ایس سی او کو کمرشل بنیادوں پر کام کرنے کی اجازت دینے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’ایس سی او ‘ نے گلگت بلتستان اور آزاد جمو ں کشمیر کے انتہائی دشوار علاقوں میں ٹیلی کام کا بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرنے سمیت بہت خدمات فراہم کیں ہیں اور اسے آمدن بنانے کا بھی حق حاصل ہے ۔
ماضی میں ایس سی او کی جانب سے ملک بھر میں زونگ ،ٹیلی نار ،موبی لنک جیسی تمام کمپنیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے اور کام کرنے کیلئے مفت لائسنس جاری کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی ،جبکہ ان کی جانب سے کمپنی کی آمد پر ٹیکس میں چھوٹ کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا ۔
وزارت انفار میشن ٹیکنالوجی کے سیکریٹر رضوان بشیر نے کمیٹی کو بتایا کہ ایس سی او کو کمرشل بنیادوں پر کام کرنے کی اجازت دینے کی تجویز حکومت کی ڈی ریگولیشن پالیسی کے متصادم ہے ۔حکومت کی ڈی ریگولیشن پالیسی کا مقصد یہ ہے کہ پرائیوٹ سیکٹر کو فروغ ملے ،حکومت ایسا محسوس کرتی ہے کہ اگر ایس سی او کو مکمل خودمختاری دے دی گئی اور اس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچنے کا خطرہ ہے ۔اس فیصلے کے باعث معیشت کی ترقی پر اثر پڑ سکتاہے اور خصوصی طور پر ٹیلی کمیونیکیشن سیکٹر میں ،جو کہ اس کے خلاف ہے ۔
جوائنٹ سیکریٹر خالد رضا گردیزی کا کہناتھا کہ ایس سی او کی تمام مالی ضروریات کو حکومت کی جانب سے پورا کیا جارہاہے تاکہ یہ ہموار طریقے سے اپنا کام جاری رکھ سکے ۔سیکریٹری رضوان بشیر کا کہناتھا کہ حکومت اس معاملے پر ایس سی او ،سینیٹ کی کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ممبران کے ساتھ اس کا حل تلاش کرنے کیلئے بات چیت کر رہی ہے ۔چیئرمین عابدی نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ اس معاملے کو جلد ہی ادارے کی بہتری کیلئے نمٹا دیا جائے گا ۔