دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے بدھ کو لڑکیوں کے عالمی دن کی مناسبت سے جاری ایک بیان میں کہا کہ پاکستان میں نوجوان لڑکیوں اور خواتین کو سماجی‘ سیاسی‘ اقتصادی اور قانونی لحاظ سے بااختیار بنانے کے لیے نمایاں اقدامات کیے ہیں۔ہمیں پاکستانی لڑکیوں بالعموم دنیا بھر کی لڑکیوں کی کامیابیوں پر فخر ہے اور ہم انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان نے خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم‘ ترقی اور خوشحالی کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں جس کے سبب گزشتہ برسوں میں عام زندگی میں لڑکیوں کی شرکت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت خواتین کی تعداد ملکی آبادی کا تقریباً 50فیصد ہے لیکن مجموعی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو لڑکیاں عملی زندگی کے میدان میں ابھی تک بہت پیچھے ہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کے لیے کوٹہ سسٹم مقرر ہونے سے اسمبلیوں میں خواتین کی تعداد میں اضافہ تو ہوا ہے مگر ابھی تک یہ تعداد ان کی آبادی کی مناسبت سے بہت کم ہے۔
اگر خواتین کی جنرل سیٹوں پر بھی الیکشن لڑنے کی حوصلہ افزائی کی جائے اور سیاسی جماعتیں خواتین کو براہ راست الیکشن کے لیے ٹکٹ دیں تو اس سے سیاست میں خواتین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح بینکنگ‘ پولیس‘ عدلیہ اور دیگر ملکی شعبوں میں بھی خواتین کی سیٹوں میں اضافہ کیا جائے تو اس سے خواتین کی ایک بڑی تعداد ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ یہاں خواتین کے حوالے سے صورت حال بعض اوقات گمبھیر ہو جاتی ہے، جمہوریت کا نعرہ لگانے والی خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں کی بعض سیاسی جماعتیں اپنے ہاں سیاست میں خواتین کی شرکت کو پسند نہیں کرتیں، یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے موقع پر خواتین کے ووٹ ڈالنے کے عمل کو روکنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے جو قطعی طور پر جمہوری اقدار کے برعکس عمل ہے۔ایک وقت تو ایسا آیا کہ دہشت گردوں نے خیبرپختونخوا میں خواتین کے تعلیمی اداروں کو نشانہ بنا کر انھیں تعلیمی عمل سے دور رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔
دیہی علاقوں میں خواتین کی ترقی کے لیے معمولی اقدامات تو کیے گئے ہیں مگر اس سے واضح تبدیلی نہیں آ سکتی اس کے لیے ناگزیر ہے کہ شہری اور دیہی علاقوں میں خواتین کے خصوصی ٹیکنیکل ادارے زیادہ تعداد میں قائم کیے جائیں اور اپنی تعلیم و تربیت مکمل کرنے والی خواتین کو بلاسود آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے جائیں‘ اس طرح معاشی میدان میں خواتین اپنی صلاحیتوں اور محنت کے بل بوتے پر انقلاب لا سکتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں آج بھی خواتین کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی اور انھیں خاندان کے لیے بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ اس منفی سوچ کو بدلنے کے لیے حکومت کو دیہی علاقوں میں خواتین کے لیے خصوصی ترقیاتی پروگرام تشکیل دینا ہوں گے، اس کے ساتھ ساتھ عام زندگی میں لڑکیوں اور خواتین کی شرکت میں اضافے کے لیے ساز گار ماحول کو بھی یقینی بنایا جانا ناگزیر ہے۔