قطر (ویب ڈیسک)قطر پر الزام لگایا گیا کہ وہ پس پردہ انتہا پسندی اور دہشتگردی کی معاونت کرتا ہے جس کی قطر تردید کر چکا ہےخلیفہ ال ہارون گذشتہ تین ماہ میں صرف ایک مرتبہ اپنی والدہ سے مل پائے ہیں۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے محض چند سو کلومیٹر کے فاصلے پر مقیم ہیں اور کچھ عرصہ پہلے تک تقریباً ہر ہفتے باقاعدگی سے ان کی ملاقات ہوا کرتی تھی۔اب مسئلہ یہ ہے کہ ان کے درمیان سرحدیں حائل ہو گئی ہیں۔ وہ سرحدیں جو دہائیوں سے موجود تھیں تاہم کبھی دونوں اطراف رہنے والوں کے درمیان ایسے حائل نہیں ہوئی تھیں۔قطر کے رہائشی 33 سالہ خلیفہ کی والدہ بحرین میں رہتی ہیں۔ زمینی راستے سے بحرین اور قطر کے درمیان فاصلہ لگ بھگ 150 کلومیٹر ہے۔ خلیفہ اپنی گاڑی میں آرام سے بحرین جا کر اسی روز واپس آ سکتے ہیں۔ وہ پہلے کئی مرتبہ اسی طرح بحرین جا بھی چکے ہیں مگر اب نہیں جا سکتے۔
ایک فیصلے کے نتیجے میں سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات کی زمینی اور فصائی سرحدیں رواں سال پانچ جون سے قطر کے رہنے والوں پر بند کر دی گئی تھیں۔خلیفہ کہتے ہیں پانچ جون کو جب وہ بیدار ہوئے تو انھیں دھچکا لگا۔ ‘مجھے یقین نہیں آیا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ ہم سب تو بھائی ہی ہیں، امارات اور بحرین کے لوگ ایسا نہیں کر سکتے۔’دوحہ کے پوش علاقے ویسٹ بے لیگون میں واقع اپنے دفتر میں کمپیوٹر پر کام کرتے ہوئے خلیفہ وہ وقت یاد کرتے ہیں جب ان کا پورا بچپن بحرین میں گزرا اور وہ ہر ہفتے آرام سے جا کر اپنی والدہ سے مل کر آ جاتے تھے۔ اب تو مہینے گزر گئے اور مزید نہ جانے کتنے دن گزریں گے۔ ‘میرے لیے تو بحرین میرا دوسرا گھر ہے۔ وہاں ہمارا گھر ہے، ہماری جائیداد ہے اور یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ اب ہم وہاں نہیں جا سکتے۔ خلیفہ ال ہارون خلیفہ ال ہارون کے مطابق ان کو زیادہ فکر ان خاندانوں کی ہے جو اس بحران سے متاثر ہوئے ہیں۔خلیفہ کو قطر میں ‘مسٹر کیو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس نام سے وہ سماجی رابطوں کی ویب سایٹ یو ٹیوب پر اپنے ایک مقبول چینل کے ذریعے لوگوں کو قطر کے مختلف پہلوؤں پر اپنے مخصوص انداز میں آگاہی فراہم کرتے نظر آتے ہیں۔ خلیفہ کے خاندان کے کاروبار کا انحصار متحدہ عرب امارات پر تھا۔ قطر میں صنعت نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ روزمرہ کے استعمال سے لے کر تعمیرات میں استعمال ہونے والا مواد بیرونِ ملک سے منگوایا جاتا ہے۔ بحران سے قبل اس کا ایک بڑا حصہ سعودی عرب کے راستہ آتا تھا۔ متحدہ عرب امارات میں بنایا جانے والا سامان بھی زیادہ تر سعودی عرب کے راستے ہی آتا تھا۔خلیفہ کا کہنا ہے کہ ‘ہمیں کبھی اس بارے میں فکر نہیں ہوئی کہ ہمیں قطر میں صنعتیں لگانی چاہییں کیونکہ ہم نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ ہمارے بھائیوں جیسے ملک ہم پر راستہ بند کر سکتے ہیں۔ ان اقدام سے ہمیں تکلیف ضرور ہوئی ہے، مگر یہ ہمیں اور زیادہ مضبوط کرے گا۔۔خلیفہ کا کہنا تھا کہ سرحدوں کی بندش کی وجہ سے ان کی کئی مصنوعات متحدہ عرب امارات میں پھنسی ہوئی ہیں۔ وہاں موجود کئی کمپنیوں نے ان کے لیے مصنوعات تیار کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ‘وہ کہتے ہیں ہم قطر کے ساتھ کسی قسم کا کاروبار نہیں کرنا چاہتے۔اب ان کے پاس واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کو سمندر کے راستے پہلے کسی اور ملک میں لے جا کر ذخیرہ کریں جہاں سے انہیں سمندر کے راستے قطر لایا جایا، مگر اس طرح خرچ کئ گنا بڑھ جاتا ہے اور کاروبار کے لیے موزوں نہیں۔ دوحہ قطر سے قطع تعلق کے فوراً بعد اس کا بائیکاٹ کرنے والے ممالک نے اپنے شہریوں کو قطر سے نکلنے اور قطر کے شہریوں کو اپنے ملکوں سے نکلنے کا حکم دے دیا تھا۔یہ صرف خلیفہ ہی کی کہانی نہیں ہے۔ بحران کے پہلے دن سے اب تک قطر کی قومی کمیٹی برائے انسانی حقوق ایسے سینکڑوں افراد کی شکایات موصول کر چکی ہے۔ان شکایات کو وہ بائیکاٹ کرنے والے ممالک کی جانب سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں قرار دیتی ہے۔کمیٹی کے بین الاقوامی تعاون کے سربراہ سعد سلطان ال عبداللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ 28 اگست تک جمع کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق انہیں 1164 ایسی شکایات موصول ہوئیں جہاں پابندی کی وجہ سے لوگوں کی نقل و حرکت ختم ہو گئی جبکہ 1050 افراد قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں اپنی جائیدادوں تک رسائی سے محروم ہیں۔ایسے مخلوط خاندان جہاں لوگوں کی شادیاں ایک دوسرے کے ملکوں میں تھیں اور اب میاں بیوی علیحدہ رہنے پر مجبور ہیں ان کی تعداد 620 ہے۔213 شکایات انھیں ان بچوں کی موصول ہوئیں جنھیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی یونیورسٹیوں سے نکال دیا گیا۔ تاہم سعد سلطان کہتے ہیں کہ ان کو زیادہ فکر ان خاندانوں کی ہے جو اس بحران سے متاثر ہوئے ہیں۔ سعد سلطان ال عبد الہہ سعد سلطان ال عبد الہہ کے مطابق 1050 افراد قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں اپنی جائیدادوں تک رسائی سے محروم ہیں۔مخلوط خاندان اور سماجی تانے بانے سرحدوں کی بندش سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ یہ وہ مشکل ترین پہلو ہے جس کا ہمیں سامنا رہا ہے اور ہم سامنا کر رہے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اس کے اثرات بہت دیر تک باقی رہیں گے۔’ ان کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم کا پہلے دن سے یہ مؤقف رہا ہے کہ عام شہریوں کو اور انسانی اقدار کو سیاست کا شکار نہیں بننے دینا چاہیے۔ وہ اپنے طور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو لکھ چکے ہیں کہ وہ بائیکاٹ کرنے والے ممالک پر زور دیں کہ وہ ‘بنیادی انسانی حقوق کا احترام کریں۔’ قطر بیک چینل کے ذریعے بحران کے حل کے لیے کوششیں کرتا رہا ہے اور تعمیری مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کر چکا ہے تاہم دوسری جانب سے عدم دلچسپی کی وجہ سے مسئلے کے حل کی طرف کوئی سنجیدہ کوشش تاحال نظر نہیں آئی۔ ٭ قطر کو مشرق وسطیٰ کے بعض دیگر ملکوں کے ساتھ سفارتی کشیدگی کے بعد ایک بڑے معاشی بحران کا سامنا ہے۔ بی بی سی قطر بحران کے وہاں رہنے والے مقامی اور غیر ملکی افراد پر اثرات کے بارے میں خصوصی رپورٹس کا سلسلہ شروع کر رہی ہے۔یہ رپورٹس آپ ہر جمعرات اور جمعے کو بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے علاوہ شام سات بجے آج نیوز کے علاوہ ریڈیو سیربین اور بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے علاوہ ہمارے یو ٹیوب چینل پر بھی دیکھ سکیں گے۔