فلوریڈا (مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستانی اور مسلم دنیا کی خواتین نے سیاست اور سائنسی تحقیقات کے شعبوں میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے اور ایسا ہی ایک نام حبارحمانی نے جنہوں نے امریکہ کے خلائی تحقیقاتی ادارے نیشنل ایروناٹکس اینڈ سپیس ایڈمنسٹریشن(ناسا) کے’انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ڈائریکٹوریٹ‘ میں ’ایویو نکس اینڈ فلائٹ کنٹرول انجینئر‘کام کررہی ہیں اور فلوریڈا کے کینیڈی خلائی سٹیشن سے راکٹ لانچ کرنے میں مدد کرتی ہیں، صرف یہی نہیں بلکہ ناسا کی طرف سے انہیں پیشہ ورانہ خدمات سے آگے بڑھ کر کام کرنے کے لیے ’ناسا آن دا سپاٹ ایوارڈ‘ اور ناسا کے مشن کے لیے اہم کردار ادا کرنے والے کارکن کی حیثیت سے ناسا کا ایک امتیاز ’ناسا گروپ اچیومنٹ ایوارڈ‘ سے نوازا گیا اور یوں انہوں نے دنیا بھر میں قوم کا سرفخر سے بلند کردیا۔
حبا رحمانی ناسا کے لانچ سروس پروگرام کے تحت صرف کرنے والے راکٹ مثلاً پیگاسس راکٹ ایس ایل اور فیلکن 9 راکٹ کی لانچ پر کام کرتی ہیں۔ جہاں ان کے فرائض میں تکنیکی مہارت فراہم کرنے سے لے کر راکٹ کی جانچ کی پیروی، اعداد و شمار کا تجزیہ اور انجینئرنگ کے مسائل پر تکنیکی جائزہ پیش کرنا شامل ہے۔رحمانی نے بتایاکہ میرے کام میں سب سے زیادہ خوشی اور پرجوش لمحہ وہ ہوتا ہے، جب میں راکٹ کو لانچ پیڈ سے اتار کر خلا میں پرواز کرتا ہوا دیکھتی ہوں۔ وہ مقامی سکولوں میں جا کر طلبہ کے ساتھ اپنے کیرئیر کے حوالے سے بات چیت کرتی ہیں اور سائنس میلے میں رضا کارانہ جج کے فرائض انجام دیے ہیں۔ناسا وومن کے مضمون کے مطابق حبا رحمانی لڑکیوں کی حوصلہ افزائی کرنا پسند کرتی ہیں۔ خاص طور پر ان لڑکیوں کی جو بڑے مقاصد کو حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔ انھوں نے خود بھی اسی فلسفے کی پیروی کی ہے اور ستاروں کو چھونے کی صرف خواہش نہیں کی ہے بلکہ، اسے پورا بھی کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق با رحمانی پاکستان میں پیدا ہوئی ہیں لیکن، جب وہ ایک ماہ کی تھیں تو ان کا خاندان کویت منتقل ہو گیا تھا۔حبا کے مطابق وہ جب چھوٹی تھیں تو اکثر اپنے خاندان کے ساتھ رات میں چہل قدمی کرنے نکلا کرتی تھی لیکن ریگستان یا فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے میری نظر ہمیشہ تاریک آسمان کے تاروں پر رہتی تھی اور شاید یہیں سے میں نے خلانورد بننے کا خواب دیکھنا شروع کردیا تھا اور مستقبل میں سائنس، علم ہیئت و فلکیات کا مطالعہ کرنیکا فیصلہ کر لیا تھا،نیل آرم سٹرانگ سے وہ متاثرتھیں۔انہوں نے بتایاکہ میرا بچپن اس وقت خوف کا شکار ہو گیا، جب عراقی فوجیوں نے اگست1990 ء میں کویت پر حملہ کیا، جس دن یہ حملہ ہوا، پناہ گزینوں کے ساتھ ہمارا خاندان بھی ریگستانوں میں مغرب کی جانب فرار ہو گیا اور ایک غیر وابستہ علاقے میں جا کر ٹھہرا، ہم آدھی رات کو پہنچے تھے اس لیے یہاں ہمارے لیے کوئی خیمہ نہیں بچا تھا۔ ایسے میں جب میں ریگستان کی ٹھنڈی ریت پر سونے کی کوشش کررہی تھی، تو بھی میرے نظر آسمان کے خوبصورت نظارے پر تھی، اور یہ مجھے میرے مقصد کی یاد دہانی کرا رہے تھے۔اردن میں کچھ دن رہنے کے بعد رحمانی اور ان کا خاندان پاکستان منتقل ہو گیا اور ان کے والد جو اس وقت امریکہ میں تھے وہ بھی اپنے خاندان کے پاس پاکستان آ گئے تاہم 28 فروری کو جب جنگ بندی کا معاہدے طے پا گیا اور کویت سے عراقی فوجیں واپس چلی گئیں تو رحمانی اور ان کے خاندان نے واپس کویت جانے کا فیصلہ کر لیا۔
حباربانی نے بتایاکہ کویت کے ہائی سکول میں ریاضی اور سائنس پسندیدہ مضامین تھے جبکہ ریاضی والد کا بھی پسندیدہ تھااور وہ اکثرکہاکرتے تھے کہ امتحان میں 100فیصد نمبر لینے ہیں، جب میں آٹھویں جماعت میں تھی تو مجھے احساس ہوا کہ انجینئر بننا ہے تاکہ ریاضی اور سائنس میں جوکچھ پڑا ہے ، اس کا عملی تجربہ کرنے کا موقع ملے گا۔کویت میں ہائی سکول مکمل کرنے کے بعد 1997ء میں رحمانی کا خاندان امریکہ منتقل ہو گیا جہاں انھوں نے یونیورسٹی آف سینٹرل فلوریڈا سے’کمپیوٹر انجینئرنگ‘ میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔حبانے بتایاکہ مجھے یاد ہے کہ فزکس کے پہلے امتحان میں میرا نتیجہ بہت خراب تھا۔ اس کے بعد میں لائبریری میں فزکس کی کتابیں پڑھنے اور مشقیں کرنے میں گھنٹوں وقت گزارا کرتی تھی اور جب سالانہ امتحانات کا وقت قریب آیا تو مجھے احساس ہوا کہ اے گریڈ حاصل کرنے کے لیے مجھے فزکس میں 100 نمبر لانے کی ضرورت ہے لیکن، جب فائنل امتحان کا نتیجہ آیا تو مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کیونکہ میں نے فزکس میں 105 نمبر حاصل کئے تھے، پانچ نمبر بونس میں لے تھے۔
گریجویشن کرنے کے بعد رحمانی نے 2000ء بین الاقوامی خلائی سٹیشن (آئی ایس ایس) پروسسنگ پر کام کرنے والے ایک نظام کے انجینئر کے طور پر کینیڈی خلائی سٹیشن میں بوئنگ کے لیے کام کیا۔اس نظام میں اپنے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے رحمانی نے کہا کہ یہاں میرا کام بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے الگ الگ حصوں کی جانچ کرنا تھا اور اگر مجھے کوئی مسئلہ دکھائی دیتا ہے تو میں اس کو حل کرتی اور اس کی دوبارہ جانچ کیا کرتی تھی اور کبھی کبھار خلانورد اسے دیکھنے کے لیے یا بھر جانچ میں حصہ لینے کے یہاں رکتے تھے۔اُنہوں نے بتایاکہ میں جانتی تھی کہ خلانورد بننے کے لیے مجھے ایک اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کی ضرورت ہے لہٰذا 2005ء میں میں نے جارجیا ٹیک سے ’الیکڑیکل اینڈ انجینئرنگ‘ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کر لی اور پھر2008ء میں ناسا نے انہیں انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ڈائریکٹوریٹ میں ان کی موجودہ پوزیشن پر قبول کر لیا ۔
ان کاکہناتھاکہ میں ایک ایسی نوکری حاصل کرنے پر بہت خوش ہوں جس سے میں بہت محبت کرتی تھی، اور امریکی خلائی پروگرام کیلئے مدد کررہی ہوں، میری زندگی کے تجربات نے مجھے سکھایاکہ ہمیشہ بڑے خواب دیکھیں اور کبھی بھی انہیں ترک نہ کریں کیونکہ اگرآپ سخت محنت کریں تو آپ وہ چیز حاصل کرسکتے ہیں جو آپ چاہتے ہیں۔