بیجنگ (مانیٹرنگ ڈیسک) چین کو اس وقت صرف سپر پاور امریکہ کے ساتھ ہی مقابلے کا سامنا نہیں ہے بلکہ اس کے اندر بھی ایک بڑی سیاسی کشمکش جاری ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ صدر شی جن پنگ حکمرانی کے متعلق گزشتہ تین دہائیوں سے جاری پالیسی کو تبدیل کرنے کے اشارے دے رہے ہیں۔
بزنس انسائیڈر کی رپورٹ کے مطابق چین نے اجتماعی رہنمائی کا ایک نیا ماڈل 1980ءکے دہائی کے آغاز میں ڈینگ شیاﺅ پنگ کی قیادت میں وضع کیا۔ ڈینگ خود تو کبھی صدر نہیں بنے البتہ انہوں نے موجودہ صدارتی نظام کی تخلیق کی اور انہیں 1978ءسے 1987ءتک کے دور کا چین کا سب سے بڑا رہنما کہا جاتا ہے۔ اس ماڈل کے تحت ملک کے سربراہ کا انتخاب کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے ارکان کے اتفاق سے کیا جاتا ہے۔ اس نظام کے تحت گزشتہ دہائیوں کے دوران ہر رہنما کا انتخاب 5سال کیلئے کیا جاتا رہا ہے جبکہ اس کے بعد 5سال کی ایک اور مدت کا موقع بھی فراہم کیا جاتا رہا ہے۔ عام طور پر دوسری مدت کا آغاز ہوتے ہی ایک یا دو جانشینوں کا نام سامنے آ جاتا تھا۔ صدر لی شیان شانیان سے لے کر موجودہ صدر شی جن پنگ کی پہلی مدت صدارت تک یہ نظام انتہائی باقاعدگی سے چلتا رہا ہے۔ صدر شی جن پنگ کی پہلی مدت صدارت مارچ 2018ءمیں ختم ہورہی ہے اور ان کا دوسری مدت صدارت کے لئے انتخاب یقینی ہے، لیکن اس بار یہ ضرور مختلف ہے کہ انہوں نے تاحال نئے جانشین کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں دیا۔
کچھ تجزیہ کار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ شاید صدر شی جن پنگ ایک تیسری مدت کا عزم بھی رکھتے ہیں، یعنی اس طرح وہ 2028ءتک صدر رہیں گے۔ چینی حکومت کی کرپشن کے خلاف مہم کے دوران بھی صدر کے دو اہم مخالفین پکڑے جاچکے ہیں۔ یہ اہم شخصیات چونگ کنگ کے سابق میئر بو شیلائی اور چین کے داخلی سلامتی نظام کے سربراہ یویونگ کانگ ہیں۔ صدر شی جن پنگ پر تنقید کرنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کا طرز عمل روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے ملتا جلتا نظر آتا ہے، جن پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو مدمقابل آنے سے پہلے ہی گرانے کا بندوبست کرلیتے ہیں۔
کیا صدر شی جن پنگ دو بار صدر منتخب ہونے کے بعد تیسری صدارتی مدت کی طرف بھی جائیں گے، اس سوال کا جواب تاحال واضح نہیں۔ صورتحال کو غیر یقینی قرار دیا جارہا ہے جس کے اثرات چین کے پالیسی فیصلوں پر بھی مرتب ہوسکتے ہیں کیونکہ ممکنہ طور پر یہ فیصلے معاشی بنیادوں کی بجائے سیاسی بنیادوں پر ہوسکتے ہیں۔