کراچی(خصوصی رپورٹ)شہرقائدمیں1990سے لے کراب تک1500سے زائد پولیس افسران و اہلکار شہید ہوچکے ہیں ،1990سے 2000تک425پولیس افسران و اہلکار شہید کیے گئے ، کراچی میں پہلے آپریشن کا آغاز 1992میں ہوا ۔1992 سے 1994 تک ہونے والا فوجی آپریشن جس کا مقصد کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کی غیر قانونی اور غیرمعاشرتی کاروائیوں کو روکنا تھا۔ اس آپریشن کے دو بنیادی وجوہات تھے ایک جناح پور اور دوسراں کراچی میں روزمرہ لڑائی جھگڑے۔یہ دور کراچی کا سب سے بدترین دور سمجھا جاتا ہے اس میںہزاروں لوگ جاں بحق ہوئے اور ہزاروں زخمی ہوئے بالآخر 1994میں پھر اس آپریشن کو روکا گیا جب کراچی میں ریاست کی مختاری بحال ہوئی اور ٹارگٹ کلنگ کو نچلی سطح تک ختم کیا گیا۔لیکن فوج کے جانے کے بعد شہر کی صورت حال ایک مرتبہ پھر خراب ہونا شروع ہوگئی اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے میجر جنرل (ر)نصیر اللہ بابر کو کراچی کا امن بحال کرنے کا ٹاسک دیا ۔نصیر اللہ بابر نے فوج اور رینجرز سے مدد لینے کی بجائے کراچی پولیس پر اعتماد کیا اور کراچی میں ایک بھرپور آپریشن کیا گیا ۔پولیس کی بے پناہ قربانیوں کے باعث 1996 میں ایک مرتبہ پھر بھی ٹارچر سیل ختم ہوئے، نو گو ایریاز کھولے گئے، ٹارگٹ کلرز گرفتار ہوئے اور بھتہ اور قبضہ مافیاز کو عدالتوں میں پیش کیا گیا، یہ آپریشن بھی کامیاب چل رہا تھا لیکن پھر محترمہ بے نظیر بھٹو اور صدر فاروق لغاری کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے اور صدر کو سیاسی حمایت کی ضرورت پڑ گئی چنانچہ صدر فاروق لغاری نے کراچی آپریشن رکوایا اور ایم کیو ایم پر ایوان صدر کے دروازے کھول دیے یوں 1996 کے آپریشن کے بھی وہی نتائج نکلے جو 1992 میں نکلے تھے، 1996 کے آپریشن کے بعد کراچی کی دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی اسلحے کے انبار لگا دیے، شہر چار حصوں میں تقسیم ہو گیا، ایک ڈیفنس، دوسرا مہاجر، تیسرا پشتون علاقہ اور چوتھا مذہبی جماعتوں کا علاقہ۔ کراچی مزید خراب ہو گیا، کراچی میں تیسرا آپریشن 1998 میں شروع ہوا، وہ ٹارگٹ کلنگ کا دور تھا، حکیم سعید جیسی شخصیت کو شہید کر دیا گیا۔کے ای ایس ای سی کے چیئرمین شاہد حامد کو مار دیا گیا اور شہر کے چوٹی کے بزنس مینوں، سرمایہ کاروں اور زمینداروں کو دھمکیوں بھرے خطوط ملنے لگے، میاں نواز شریف کی حکومت تھی، حکومت نے اگست 1998 کو کراچی میں آپریشن شروع کر دیا، وہ آپریشن بھی کامیاب چل رہا تھا لیکن پھر 1999 میں آرمی چیف جنرل پرویز مشرف اور میاں نواز شریف کے تعلقات خراب ہو گئے، پھر جنرل پرویز مشرف کو بھی ایم کیو ایم کی ضرورت پڑ گئی، 12 اکتوبر 1999 کو میاں نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی اور اس کے ساتھ ہی کراچی آپریشن بھی رک گیا۔پرویز مشرف کے دور حکومت ایم کیو ایم کے عروج کا زمانہ تھا ۔کراچی آپریشن میں سرگرم پولیس افسران و اہلکار اس دور میں اپنی جان بچانے کے لیے مارے مارے پھرتے رہے لیکن ان کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا ۔2002سے 2007کے عرصہ کے دوران تقریباً300ایسے پولیس افسران و اہلکاروں کوچن چن کر قتل کیا گیا جنہوںنے کراچی آپریشن میں اہم کردار ادا کیا تھا ۔کسی کو اغوا کرکے قتل کیا گیا تو کسی کو نماز ادا کرتے ہوئے مسجد میں شہید کیا گیا ۔انسپکٹر ذیشان کاظمی ،انسپکٹر بہادر علی ،سب انسپکٹر توفیق زاہد ،انسپکٹر بہاءالدین بابر ،سب انسپکٹر حیدر بیگ ،سب انسپکٹر ریحان ،سب انسپکٹر نثار احمد،انسپکٹر ناصر الحسن ،شفیق تنولی،چوہدری اسلم سمیت کراچی آپریشن کے مشہور کرداروں کو آہستہ آہستہ پراسرار طریقوں سے قتل کیا جاتا رہا لیکن افسوسناک صورت حال یہ تھی کہ محکمہ پولیس خود ہی اس قدر خوفزدہ تھا کہ اپنے ان بہادر افسران کے قاتلوں کے خلاف کارروائی کرنے سے قاصر رہا ۔کراچی آپریشن کے ان پولیس افسران کو بے یارو مدد گار چھوڑنے کے باعث پولیس کا مورال ڈاو¿ن ہوا اورشہر میں اس کا کردار محض خاموش تماشائی کا بن کر رہ گیا ۔ماضٰی میں اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے رویہ کے باعث کراچی پولیس اب کسی آپریشن کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہے ۔ ،آئی جی سندھ کا تازہ بیان بھی اس ہی بے بسی کا حصہ نظر آرہا ہے کیونکہ وہ بھی واضح طو رپر یہ نہیں بتارہے ہیں کہ ان پولیس افسران کو کن لوگوں نے چن چن کر شہید کیا ۔شہری حلقوں کا کہنا ہے کہ پولیس کا مورال بڑھانے کے لیے کراچی آپریشن میں شہید کیے گئے پولیس افسران کے قاتلوں کو سخت سزا دیئے جانے محکمہ پولیس سے اچھی کارکردگی کی توقع رکھنا بیکار ہے ۔
About BLI News
3242 Articles
Multilingual news provider for print & Electronic Media. Interviews, Exclusive Stories, Analysis, Features, Press Conferences Photo & Video Coverage and Economic Reviews, Pakistan and Worldwide. Opinions, Documentaries & broadcast.