اسلام آباد (بی ایل آ ئی) وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان کی برآمدات میں بہتری کیلئے 180 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستانی معیشت اس سے کہیں زیادہ ملکی خزانے کو واپس کرے گی۔ ملک کو نظر لگ گئی تھی اور پچھلی حکومتوں نے بھی مسائل حل کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کیا۔ اب اللہ نے کرم کیا ہے اور بجلی کے سینکڑوں کارخانے لگ رہے ہیں، موٹرویز اور ہائی ویز بن رہی ہیں، پاکستان ترقی کر رہا ہے اور آگے بڑھ رہا ہے، عالمی ریٹنگ کے ادارے پاکستان کی معاشی ترقی کی تعریف کر رہے ہیں ، اللہ نظر بد سے بچائے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان میں برآمدات کی بہتری کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج جس 180 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے وہ ناصرف واپس آئے گا بلکہ اس سے بھی زیادہ پاکستان کو ملے گا۔ پاکستان کو اس وقت بہت آگے ہونا چاہئے تھا لیکن اسے نظر لگ اور شائد ماضی کی حکومتوں نے بھی کچھ کیا نہیں بلکہ الٹا پاکستان میں ترقی کے بجائے مسائل کھڑے کر دئیے، جیسا کہ بجلی کا مسئلہ جو کہ بالکل بھی معمولی نہیں تھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ بجلی کا مسئلہ ماضی کی حکومتوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس پر توجہ دیتے اور اسے حل کرتے اور پاکستان کو اندھیروں کا شکار نہ کرتے۔ 2013ءمیں جب ہماری حکومت بنی تو اس وقت کی ٹیلی ویژن اور اخباروں کی سرخیاں دیکھیں تو جگہ جگہ احتجاج ہوتے تھے، لوگوں نے کھمبوں، واپڈا اور بجلی کے دفاتر کو آگ لگا رکھی ہوتی تھی اور پولیس ان کے پیچھے بھاگتی، لاٹھی چارج کرتی تھی۔ اور یہ پھر یہ سب گرمی کے دنوں میں ہوتا تھا جب درجہ حرارت 45 تک تھا۔
جب کسی ملک کی فیکٹریاں بند ہوں او بیروزگاری عام ہو جائے تو یہ چیز کسی ملک کے بارے میں کیا نقشہ پیش کرتی ہے؟ جہاں دہشت گردی ہو، آئے روز بم دھماکے ہوں، شہید ہو رہے ہوں، بیروزگاری عام اور غربت بڑھ رہی ہو، جہاں صنعتیں بند ہوں تو وہاں بیروزگاری نہیں ہو گی تو کیا ہو گا، ٹیوب ویل بند اور زراعت ختم ہو جائے تو وہاں اور کیا ہو گا؟
پاکستان کے بارے میں یہی کہا جاتا تھا کہ خدانخوانستہ دیوالیہ کی جانب بڑھ رہا ہے اور ناکام ریاست ہے لیکن پھر اللہ تعالی نے کرم کیا اور چیزیں بدلنا شروع ہو گئیں۔ آج جتنے بھی صنعتکار یہاں بیٹھے ہیں، کسی کے شعبے میں کوئی لوڈشیڈنگ نہیں، گیس اور بجلی پوری ہے، گھریلو صارفین کو بھی بجلی مل رہی ہے اور ماضی کی لوڈشیڈنگ کے مقابلے میں آج زمین آسمان کا فرق ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام ذمہ دار لوگوں سے پوچھ گچھ ہونی چاہئے، چاہے وہ اوپری سطح کے ہوں یا نچلی سطح کے، ان سے یہ پوچھا جانا چاہئے کہ ملک میں یہ صورتحال کیوں پیدا کی گئی، سب نے یہی کہا ہے کہ اگلی باری بھی ہماری ہی آئے گی، بس اللہ نظربد سے چائے۔ اس موقع پر انتہائی خوشگوار صورتحال بھی پیدا ہوئی جب شرکاءنے اعظم کی جانب سے ایسا کہے جانے پر آمین کہا تو وزیراعظم نے برجستہ سوال کیا کہ ”یہ آپ کس چیز پر آمین کہہ رہے ہیں۔“ ان کا کہنا تھا کہ حکومت چلانا بہت مشکل کام ہے اور پھر پاکستان کی حکومت، جہاں میڈیا صبح شام درگت بناتا ہے۔ وزیراعظم نے اس موقع پر ایک واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ ”ایک صاحب کہنے لگے کہ دن بہت اچھا گزرتا ہے۔ دفتر میں کام کرتے ہیں، محنت کرتے ہیں، ترقی ہوتی نظر آتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ترقی ہو رہی ہے اور خوشحالی آ رہی ہے لیکن جب شام کو چھ بجے گھر پہنچتے ہیں اور رات کو 10 بجے ٹی وی دیکھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان تباہی کی طرف جا رہا ہے۔
میری ایسے لوگوں سے استدعا ہے کہ اس طرح کا ماحول پیدا نہ کریں، میں سب کی بات نہیں کر رہا، بہت سے چینل ملک کے ہمدرد ہیں اور پاکستان کی ترقی چاہتے ہیں اور لوگ ایسے اینکرز، چینلوں اور صحافیوں کو بھی پسند کرتے ہیں لیکن جو چینل روز مایوسی پھیلاتے ہیں لوگ انہیں دیکھنا بھی کم کر رہے ہیں۔ میں اندازہ لگاتا ہوں کہ جب 2013ءمیں الیکشن تھے تو کچھ چینل ہمارے خلاف بہت زیادہ بول رہے تھے، میں نے آتے ہی کہا کہ آپ انپا کام مثبت طریقے سے کریں گے تو ہم حوصلہ افزائی کریں گے، میں میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتا ہوں اور اس کے ساتھ مثبت اور تعمیری تنقید پر بھی یقین رکھتا ہوں۔ آپ میں سے بھی کوئی حکومتی پالیسیوں کے خلاف بولنا چاہے تو بیشک بولے، ہمارے اندر خامیوں کی نشاندہی ہونی چاہئے اور ان کی اصلاح بھی، لیکن صرف تنقید اور نیچا دکھانے کا عنصر ہو تو یہ مناسب نہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ لوڈشیڈنگ بہت کم ہو چکی ہے اور مجھے یقین ہے کہ 2018ءمیں بجلی کی قلت ختم ہو جائے گی، میرا مقصد بجلی کی قلت ختم کرنا نہی بلکہ بجلی کی قیمتیں بھی کم ہونی چاہئیں۔ صنعتوں اور گھریلو صارفین کیلئے بھی قیمتوں میں کمی ضروری ہے اور ہم اس جانب بھی بڑھ رہے ہیں۔ ملک میں جو کارخانے لگ رہے ہیں وہ مجھے نہیں معلوم کہ کیسے لگ رہے ہیں۔ 2013ءکے انتخابات کے بعد جب ہم الیکشن جیتے تو سوچا کہ ملک چلانا کیسے ہے، سب سے بڑا مسئلہ تو بجلی ہے، بجلی کے کارخانے لگانے کیلئے ہمارے خزانے میں پیسہ ہے؟ سوچ بچار کے بعد سب نے یہی کہا کہ ایک آدھ کارخانہ ہی لگ سکتا ہے کیونکہ نہ ہی زرمبادلہ ہے اور نہ ہی خزانے میں رقم، قرض بھی نہیں لے سکتے، تو صرف ایک بجلی کے کارخانے کی بات ہو رہی تھی جس پر میں نے سوچا کہ بجلی کی قلت کا خاتمہ کیسے کریں گے۔
لیکن اللہ نے کرم کیا اور آج سی پیک کے تحت پاکستان میں درجنوں کارخانے لگ رہے ہیں جبکہ کچھ وہ بھی ہیں جو اپنے پیسے سے لگا رہے ہیں جیسا کہ ایل این جی پاور پلانٹس، اور ابھی ہم نے بھاشاڈیم کا فیصلہ کیا ہے جو تربیلا اور منگلا ڈیم سے بھی بڑا ہو گا اور 4500 میگاواٹ بجلی دے گا، ہم نے یہ منصوبہ اپنے وسائل کیساتھ لگانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کیلئے 110 ارب روپے کی زمین خریدی ہے جبکہ اس پر 1400 ارب روپے خرچ ہو گا۔ ہر سال اس منصوبے کیلئے رقم مختص کریں گے جبکہ اس کا پاور ہاﺅس سی پیک میں منظور ہو چکا ہے اور باقی 7 سے 8 سو ارب روپے اگلے پانچ سات سالوں کے اندر اپنے وسائل کے ذریعے مکمل کریں گے۔ یہ بہت بڑا منصوبہ جس پر سب کو خوش ہونا چاہئے کیونکہ یہ ناصرف بجلی کی کمی پورا کرے گا بلکہ پاکستان میں کاشتکاروں کی زمینیں بھی سیراب ہوں گی اور یہ بہت ضروری ہے کہ اس طرح کے ڈیم پاکستان میں بنیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت ریلوے بھی ٹھیک ہو رہی ہے اور اس کی اپ گریڈیشن پر 8 ارب روپے خرچ کئے جا رہے ہیں جس کے بعد ریلوے کی رفتار ڈبل ہو جائے گی اور کراچی اور پشاور کے درمیان سفر کا دورانیہ آدھا ہو جائے گا۔ اسی طرح 2013ءمیں جب آئے تھے تو خصوصی طور پر کاروباری حضرات سے پوچھا تھا کہ بجلی کی قیمت کیا ہے جس پر جواب ملا تھا کہ 15 سے 16 روپے کے درمیان ہے اور آج جب پوچھا تو پتہ چلا کہ یہ 11 روپے ہے یعنی ملک میں بجلی کی قیمت میں 4 سے 5 روپے کمی ہوئی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نیلم جہلم منصوبہ لگ رہا ہے جو اگلے سال کے شروع میں 960 میگاواٹ بجلی دینا شروع کر دے گا، تربیلا فور سے 1400 میگا واٹ حاصل ہو گی، اس سال اور اگلے سال کے شروع تک ہم 10,000 میگاواٹ اپنے سسٹم میں مزید لائیں گے اور اس طرح چند سالوں میں 30 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں لانے کا ہدف مقر کیا ہے۔ 2 سالوں میں 10 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہونا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔معیشت بہتر ہو رہی ہے، پالیسی ریٹ بھی بہت کم ہو چکا ہے، سرمایہ کاروں کیلئے بہت آسانی ہے ورنہ پہلے انٹرسٹ ریٹ 15 سے 16 فیصد تھا اور اب پانچ سے چھ فیصد ہے، فزیکل ڈیفزیٹ کم ہو کر 4.6 فیصد ہو گیا ہے ، اچھے اچھے کام ہو رہے ہیں، موٹرویز، ہائی ویز بن رہے ہیں، بلوچستان بدل رہا ہے، لواری ٹنل کو اپنے دور میں بہت پیسے دئیے ہیں اور اب مکمل ہو رہی ہے ، حسن ابدال سے خنجراب تک سڑک جا رہی ہے ، نیا پاکستان بن رہا ہے ،پشاور سے حسن ابدال اور حسن ابدال سے کراچی تک 6 لین کی موٹروے بنے گی، بلوچستان کو دیگر صوبوں سے منسلک کرنے کیلئے سڑکیں بن رہی ہیں ، ہر طرف ترقی ہور رہی ہے، عالمی ریٹنگ کے ادارے پاکستان کی معاشی ترقی کی تعریف کر رہے ہیں ، سٹاک ایکسچینج 11 مئی 2013ءمیں 19 ہزار پر تھی اور آج 48 ہزار پر ہے، گوادر اب بالکل بدل رہا ہے اور بہترین علاقوں میں سے ایک بننے جا رہا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ وہاں پر بھی ایک بہت بڑی معاشی سرگرمی شروع ہونے والی ہے، اللہ تعالیٰ نظربد سے بچائے۔