اشک آباد:
وسط ایشیا کی مسلم ریاست ترکمانستان کا ایک صحرائی علاقہ ’’دروازہ‘‘ کہلاتا ہے جہاں آبادی سے خاصی دوری پر زمین میں ایک وسیع گڑھا موجود ہے جو ہر وقت گرم اور روشن رہتا ہے۔
اسی خاصیت کی بناء پر اس گڑھے کا نام ’’جہنم کا دروازہ‘‘ پڑگیا ہے جب کہ اسے ’’آگ کا گڑھا‘‘ اور ’’دروازہ کا گڑھا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں سے 1950 کے عشرے میں یعنی سابق سوویت یونین کے زمانے میں قدرتی گیس دریافت ہوئی تھی جسے کنواں کھود کر نکالنا شروع کردیا گیا تھا۔ لیکن 1971 میں قدرتی گیس کے اس کنویں کا بالائی حصہ ٹوٹ کر گر گیا جس کی وجہ سے یہاں ایک گڑھا بن گیا جس سے قدرتی گیس مسلسل خارج ہورہی تھی۔
ماحول میں قدرتی گیس شامل ہونے سے روکنے کے لیے وہاں کام کرنے والوں نے اس گڑھے میں آگ لگادی جو آج تک مسلسل جل رہی ہے کیونکہ اس جگہ سے گیس کا اخراج جاری ہے۔
5 ہزار مربع میٹر سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا یہ گڑھا 69 میٹر چوڑا اور 30 میٹر گہرا ہے جو گیس کے مسلسل جلتے رہنے کی وجہ سے گرم اور روشن رہتا ہے۔ اگرچہ اس گڑھے تک پہنچنے کا راستہ طویل اور دشوار گزار ہے لیکن پھر بھی ہر سال دنیا بھر سے ہزاروں سیاح یہاں آتے ہیں اور خاص طور پر پوری رات قیام کرتے ہیں تاکہ رات کی تاریکی میں اس ’’جہنم کے دروازے‘‘ سے نکلتی ہوئی روشنی اور حرارت سے لطف اندوز ہوسکیں۔