اردو نے پوری دنیا میں محبت کا پیغام ہی پھیلایاہے


کراچی(عبدالستار مندرہ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام 13ویں عالمی اردو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اہل علم و دانش نے کہا ہے کہ زبان کوئی بھی ہو نفرت نہیں محبت سکھاتی ہے اردو نے پوری دنیا میں محبت کا پیغام ہی پھیلایاہے۔ ادیبوں اور دانشوروں کو معاشرے کی رہنمائی کرنا چاہئے۔ معاشرے میں ادب پورے سماج کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اردو زبان بادِ نسیم کی طرح سرحدوں کے آر پار چلتی ہے، اردو زبان کی جتنی ترقی اس صدی میں ہوئی پچھلی دو تین صدیوں میں نا ہوسکی۔ اردو زبان کو کچلنے کی جتنی کوشش کی گئی اس نے اتنی ہی ترقی کی۔ پاکستان کی کسی زبان کا اردو کے ساتھ جھگڑا نہیں ہے اردو کانفرنس کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ ادیبوں نے اپنی تخلیقات سے معاشرے پر کیا اثر چھوڑا اور آئندہ معاشرے کی رہنمائی کے لئے انہیں کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔مجلس صدارت میں زہرا نگاہ،پیر زادہ قاسم رضا صدیقی، زاہدہ حنا ،نورالہدی شاہ، حسینہ معین،پروفیسر سحر انصاری، قدسیہ اکبر،شاہ محمد مری، یوسف خشک جب کہ افتخار عارف، گوپی چند نارنگ اور یاسمین حمید نے ویڈیو لنک سے خطاب کیا۔ یہ عالمی اُردو کانفرنس آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے سوشل میڈیا پر دنیا بھر میں براہِ راست دیکھی گئی۔ عالمی اُردو کانفرنس کے مہمان خصوصی صوبائی وزیر ثقافت وسیاحت سید سردار علی شاہ نے کہا کہ احمد شاہ کو کریڈٹ جاتا ہے کہ عالمی اردو کانفرنس کی شکل میں حقیقی پاکستان کی تشکیل کی کوشش کی۔ پاکستان کی چار اکائیاں انتظامی نہیں آئینی ہیں جن کی ہزاروں سال پرانی اپنی زبان و ثقافت ہے اور آرٹس کونسل کراچی کی اُردو کانفرنس ان ثقافتوں کو جوڑنے کی ہی ایک کڑی ہے یہی خواب پاکستان کی صورت میں ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ نے کبھی نفرت کی بات نہیں کی سندھ محبت کی سرزمین ہے۔انہوں نے کہاکہ اردو سب زبانوں سے بنی ہے اور آج زہرا نگاہ کی صدارت میں ساری زبانیں بولنے والے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اردو کے علاوہ تمام قومیتوں کی زبانوں کو بھی قومی زبانیں قرار دینا چاہئے دیگر زبانوں کو قومی زبانیں قرار دینے کا بل دس سالوں سے اسمبلیوں میں موجود ہے ایسا نا ہو کہ ہمیں پچھتانا پڑے، بھارت چھبیس زبانوں کو قومی زبان قرار دے سکتا ہے تو ہم چار زبانوں کو کیوں نہیں،صدر آرٹس کونسل احمد شاہ نے کہا کہ 13 سال پہلے یہ خواب دیکھا تھاجو کامیابی کے ساتھ جاری ہے مگر آج تیرھویں عالمی کانفرنس کے موقع پر رنجیدہ بھی ہیں کیونکہ اس کانفرنس میں بعض وہ لوگ ہمارے ساتھ نہیں ہیں جو گزشتہ اُردو کانفرنسز میں موجود تھے،انہوں نے کہاکہ موجودہ حالات کے تناظر میں زیادہ لوگوں کی شرکت سے اجتناب برتا گیا اور ہمارے بہت سارے ادباءاور شعراءاس عالمی اُردو کانفرنس میں ویڈیو لنک کے ذریعے کانفرنس میں شامل ہورہے ہیں کیونکہ ہم اپنی اس روایت کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا پاکستان کی کسی زبان کا بھی اردو سے جھگڑا نہیں ہے بلکہ کچھ لوگ زبان کی بنیاد پر سیاست کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا مختلف زبانوں کے دانشوروں کا آپس میں کوئی اختلاف نہیں سوائے نظریات کے،انہوں نے کہاکہ اس اردو کانفرنس کا مقصد یہ ہے کہ مختلف الخیال لوگ آپس میں مل کر بیٹھیں اور ہمیں یہ معلوم ہوسکے کہ فلسفیوں اور ادیبوں نے اپنی تخلیقات سے معاشرے پر کیا اثرات چھوڑے اور آئندہ معاشرے کو بہتر بنانے کے لئے ہمیں کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کورونا ختم ہونے کے بعد قومی ثقافتی کانفرنس بھی منعقد کریں گے۔ جوش ملیحہ آبادی، صادقین، مہدی حسن، کمال احمد رضوی اور دیگر ادیبوں اور دانشوروں اور فن کاروں کے نام پر آرٹس کونسل کراچی کے مختلف گوشوں کے نام رکھے جا رہے ہیں۔زہرا نگاہ نے اس موقع پر دنیا بھر میں پھیلی ہوئی موجودہ وباءکورونا کے حوالے سے اپنی دو خوبصورت نظمیں سنائیں، لاہور سے یاسمین حمید نے اپنا کلیدی مقالہ پڑھتے ہوئے کہاکہ ادبی عہد کی کوئی حد نہیں ہوتی 1920ءسے 1936ءتک کا زمانہ ایک عہد کے اختتام اور دوسرے کے آغاز کا زمانہ ہے،گوپی چند نارنگ نے کہا کہ ادیبوں اور دانشوروں کو معاشرے کی رہنمائی کرنا چاہئے ، ادبیوں کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کے دونوں پہلوﺅں کو اپنے قاری تک پہنچائیں، انہوں نے کہاکہ میں بلوچستان میں پیدا ہوا ہوں اور میں نے میٹرک بلوچستان ہی سے کیا ہے، سرائیکی زبان دودھ کی پہلی دھار کی طرح میرے خون میں شامل ہوئی،کراچی آرٹس کونسل جو کام کر رہی ہے وہ پورے برصغیر کے لئے مثال ہے، افتخار عارف نے کہا کہ سب سے پہلے اپنی زبان اور اپنے لوگوں سے محبت کریں۔ پاکستان میں زبانوں کو سیاسی مسئلہ بنایا گیا۔ اردو ادب کی صد سالہ تاریخ میں بہت سے واقعات رونما ہوئے، پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ ادب کو جتنا فروغ اس صدی میں ملا اتنا پہلے کبھی نہیں ملا زبانوں کو پہلے کبھی اتنی توجہ نہیں ملی جتنی اس دور میں مل رہی ہے انسان اور جانوروں کے درمیان فرق محض ادب کا ہے اور ادب سکھانے میں زبانوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ ہندوستان کے معروف نقاد و شاعر شمیم حنفی نے کہاکہ ہمارے لیے اپنے اجتماعی ماضی کو قید خانہ بنا لینا ہر لحاظ سے مہلک ہوگا اور ہماری ادبی اور تہذیبی روایت کی تاریخ اور جغرافیہ دونوں کو محدود اور منقسم کردے گا، ادب ،ثقافت اور فنون کے ساتھ اقتدار کے مراکز کا سلوک ہر جگہ ایک سا ہے، اس کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم رضا صدیقی نے کہا کہ یہ اردو کانفرنس نامساعد حالات میں بہترین کارکردگی کا عملی مظاہرہ ہے، ادب انسان اور انسانیت کی فضیلیت کی بات کرتا ہے ادب کسی بھی زبان کا ہو انسان کی فضیلیت سے جڑا ہوگا،نور الہدی شاہ نے کہاکہ ہم برسوں سے نفرت کی وبا میں گھرے ہوئے ہیں اسی وبا سے بیمار ہوکر ہم نے مشرقی پاکستان کھو دیا نفرتوں میں کمی کا علاج صرف ادیبوں ، شاعروں اور دانشوروں کے پاس ہے ادیبوں سے درخواست ہے کہ اپنی تخلیقات کے ذریعہ نفرت کی آگ بجھائیں، زاہدہ حنا نے کہا کہ سرحدوں پر جنگ کے بادل اور عالمی وبا کے باوجود اردو کانفرنس کا انعقاد خوش آئند ہے پاکستان میں تمام زبانیں بولنے والوں کو انکا حق ملنا چاہئے۔ شاہ محمد مری نے کہاکہ بلوچستان میں ادب کے فروغ کے لئے کام کر رہے ہیں معاشرے کے سدھار کے لئے ادیبوں اور دانشوروں کو چوبیس گھنٹے کام کرنا ہوگا۔معروف ادیبہ حسینہ معین نے کہاکہ مجھے اردو زبان سے محبت ہے ،اردو ادب کو سو سال ہو چکے ہیں محبت کرنے اور بانٹنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا۔

About BLI News 3239 Articles
Multilingual news provider for print & Electronic Media. Interviews, Exclusive Stories, Analysis, Features, Press Conferences Photo & Video Coverage and Economic Reviews, Pakistan and Worldwide. Opinions, Documentaries & broadcast.

Be the first to comment

Leave a Reply