کراچی میں جاری بارہویں عالمی اُردو کانفرنس

کراچی (عبدالستار مندرہ ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ بارہویں عالمی اردو کانفرنس کے پہلے روز جشن فہمیدہ ریاض کا انعقاد کیا گیا، جس میں معروف ترقی پسند ادیبہ شاعرہ سماجی کارکن اور حقوقِ نسواں کی علمبردار فہمیدہ ریاض کو خراجِ تحسین پیش کیا جبکہ تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر آصف فرخی نے انجام دیئے۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہاکہ فکر و فن کے ذریعے چھا جانے والی شخصیت کا نام فہمیدہ ریاض ہے، انہوں نے “چادر اور چار دیواری” اس دور میں لکھا جب اظہارِ رائے پر پابندی تھی۔ یاسمین حمیدنے کہاکہ اولین زمانے میں قائم ہونے والی رائے لوگوں میں اتنی راسخ ہوجاتی ہے کہ لوگ اس میں قید ہوکر رہ جاتے ہیں فہمیدہ ریاض بھی اسی معاشرتی رویہ کا شکار ہوئیں۔ مجاہد بریلوی نے کہاکہ نوحہ کبیر کا ہر اس ماں کا کرب ہے جس کا بیٹا جواں سالی میں انتقال کرگیا ہو۔ انیس ہارون نے اپنی یادداشتیں شیئر کرتے ہوئے کہاکہ باغی کا امیج رکھنے والی فہمیدہ ریاض رجائیت پسند تھیں ہر لمحہ پرا ±مید رہتی تھ

یں۔ نور الہدیٰ شاہ نے اختتامی کلمات میں کہاکہ فہمیدہ ریاض کا ایک جملہ میری نظروں سے گزرا

جس میں انہوں نے کہاکہ افسوس میں جہاں دیدہ ہوں، جہاں دیدہ عورت ہر دور میں د ±کھ ہی دیکھتی ہے، مہاجرت کے د ±کھ کے ساتھ سندھ سے غیرمشروط محبت فہمیدہ ریاض کا خاصہ ہے، واضح رہے کہ فہمیدہ ریاض کو سندھی، ا ±ردو، انگریزی اور فارسی زبان پر عبور حاصل تھا، مثنوی مولانا روم ، شیخ ایاز ، شاہ عبدالطیف بھٹائی کے کلام کا بھی ترجمہ کیا اور بچوں کے حوالے سے بھی انہوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ خالد احمد نے تحت الفظ میں ان کا کلام پیش کیا۔ جشن فہمیدہ ریاض کا اختتام ا ±ن کی نظموں پر شیما کرمانی کی گروپ پرفارمنس پر ہوا۔

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں جاری بارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے دوسرے دن پہلے اجلاس میں “شعروسخن کا عصری تناظر” کے موضوع پر اہل علم و دانش نے مختلف عنوانات پر اپنے اپنے مقالے پیش کیے، اجلاس کی صدارت معروف ادباءو شعراءامجد اسلام امجد، افتخار عارف، کشور ناہید، امداد حسینی، عذرا عباس، منظر ایوبی اور افضال احمد سید نے کی جبکہ نظامت کے فرائض شکیل خان نے انجام دیئے۔ یاسمین حمید نے “جدید نظم میں طرزِ احساس کی تبدیلیاں” کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جدیدیت کا لفظ نظم اور غزل کے لیے بارہا استعمال ہوا ہے اور یہ وہ وقت تھا جب 1939ءکے جدیدیت پسند حلقے نے اسے استعمال کیا، انہوں نے کہاکہ عمومی سطح پر جدیدیت پسندی تخلیق پر حاوی ہوتی گئی، اُردو میں آزاد نظم کی پہلی اشاعت 1932ءمیں ہوئی، نظم کے اظہار میں پھیلاﺅ ہے، نظمیں عموماً ایک جگہ پر جامد اور ساکت رہتی ہیں، انہوں نے کہاکہ ترقی پسند کا راستہ بھی اجتماعی فکرو عمل کا راستہ تھا، طرزِ احساس ایک ردِ عمل ہے، انسان کی زندگی اور خود انسان جتنا سادہ ہوگا یہ ردِعمل بھی اُتنا ہی سادہ ہوگا، مبین مرزا نے “جدید شعری تناظر اندیشے اور امکانات”پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ آج ایک سوال ہم سب کے لیے بہت اہم ہے اور سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل قریب میں شاعری ختم ہوجائے گی، میں سمجھتا ہوں کہ اس کا جواب دینا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ یہ سوال ہمیں جھنجھوڑ دیتا ہے مگر بعض سنجیدہ اذہان اب یہ سوچ رہے ہیں کہ اس سوال کا اطمینان بخش جواب کیا ہوسکتا ہے، انہوں نے کہاکہ زمانے کے بدلتے رنگ اور انسانی صورتحال کے پیچیدہ رویوں سے یہ سوال تعلق رکھتا ہے اور انسانی حالات سے اس سوال کا تعلق ہے، شاعری بے شک اظہار کا ذریعہ ہوتی ہے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ فرد کے نظام کا طریقہ کار اس سے وضع ہوتا ہے، انہوں نے کہاکہ تغیرات کا عمل حقیقت ہے مگر بڑی تبدیلی کو تبدیلی کا روزمرہ نہیں کہا جاسکتا اس طرح کی آہٹ کو پہلے سے جانچنا ضروری ہے، یورپ میں ادب کی صورتحال پر کافی گفتگو ہوئی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے عصری حقائق کے ساتھ اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، انہوں نے کہاکہ ہم اہلِ اُردو ہنوذ دِلّی دُور است کا مزاج رکھتے ہیں ، شاعری سماجی رویوں پر اثر انداز ہوتی ہے، اگر شعر وسخن پر بات

کرنی پڑے تو ہمیں اس معاملے میں کوتاہی نہیں برتنی چاہیے کیونکہ بے تحاشہ ترقی نے وہ گَرد اُڑائی ہے کہ انسانی افتخار کا کوئی شعور ہی باقی نہیں رہا، انہوں نے کہاکہ مشاعرے تربیت گاہ کی حیثیت رکھتے آئے ہیں، سب سے پہلے شعر سننے اور سنانے کے قاعدے سیکھے جاتے ہیں، آج مشاعرے کا تفریح گاہ بن جانا شعرو سخن کی موت ہے، میڈیا نے بھی اس میں بڑا کردار ادا کیا ہے، مشاعروں کے نام پر بعض نمونوں کو شعراءبنا کر پیش کیا جاتا ہے اور اس کا عنوان عوام کی تفریح کا سامان رکھا جاتا ہے، انہوں نے کہاکہ شعر گوئی تماشا گوئی ہوکر رہ گئی ہے، اس عہد کا انسان جن حالات میں رہ رہا ہے وہ اس کی سوچ اور رویوں کو بدل رہے ہیں اور ردِعمل کے شعور کو بھی ختم کررہے ہیں، کوئی بھی تخلیق کار تخلیق کے موقع پر تو تنہائی پسند کرسکتا ہے مگر اپنے فن کو دوسرے تک پہنچانے کے لیے اسے دوسروں میں آنا ہی پڑتا ہے، انہوں نے کہاکہ جوہرِ انسانیت نہ ہو تو انسان اور روبوٹ میں کس طرح فرق محسوس کیا جاسکتا ہے، پہلے انسان کی تباہی کا سبب جنگیں ہوا کرتی تھیں مگر اب انسان اپنے ہی بنائے ہوئے دلچسپ کھلونوں کے ہاتھوں تباہ ہورہا ہے، شاعری لمسِ حیات کے طور پر انسان کو ودعیت کی گئی ہے، شعرو سخن کی بقاءکی جنگ انسان دشمن قوتیں کبھی نہیں جیت سکتیں، انہوںنے کہاکہ شاعری کے خاتمے کا مطلب انسانیت کا خاتمہ ہوگا لہٰذا یہ جنگ تب تک جاری رہنی چاہیے جب تک ایک شخص بھی اس زمین پر انسانیت کا نام لینے والا ہے۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے “جدید غزل میں نسائیت کی معنوی جہات” پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ غزل روایتی صنفِ سخن ہے، خواتین نے جب اپنے پورے وجود کے ساتھ لکھنا شروع کیا تو وہی جدید غزل کا دور ہے، انہوں نے کہاکہ کشور ناہید نے نظم اور نثر دونوں میں تہلکہ مچایا جبکہ فہمیدہ ریاض نے غزلیں کم لکھیں مگر اُن کی نظموں کی تعداد زیادہ ہے، انہوں نے کہاکہ پروین شاکر کے حصے میں غیرمعمولی شہرت آئی۔ شاداب احسانی نے “اُردو شاعری اور پاکستانی بیانیہ”پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ جس قوم کا اپنا بیانیہ نہیں ہوتا وہ اس کا تاریک ترین پہلو ہوتا ہے، پاکستان کی بقاءپاکستانی بیانیے میں ہے، انہوں نے کہاکہ اصناف ثقافت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں، شاعری انسان کا اوّلین اظہار ہے، قبلِ مسیح کا ادب ہو یا اس کے بعد کا ادب سماج شاعری ہی سے جڑا ہوا ہوتا ہے، ادب اور شعر کی بات میں زندگی سے جڑا اظہار ہی ادب کہلاتا ہے، شاعری معاشرے کی ترجمان ہوتی ہے، انہوں نے کہاکہ اُردو خطے کی مرکزی زبان ہے جو تمام لوگوں کو اظہارِ کا وسیلہ بنائے ہوئے ہے، انہوں نے کہاکہ ہم پاکستانی بیانیے کی بات تو کرتے ہیں مگر اندر سے مغرب کے بیانیے کے معترف ہیں۔ تنویر انجم نے “اُردو نثری نظم اور مابعد جدید صورتحال” پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں بے ترتیبی کو ترتیب میں لانا ہے، مغرب نے اسی مقصد کو پانے کے لیے اور اسی مقصد کو جواز بناکر دُنیا کے بیشتر ملکوں کے معاملات میں حصہ لیا تاکہ وہاں پھیلی ہوئی بے ترتیبی کو ترتیب میں لاسکیں، سماجی عمل کے ذریعے ترتیب اور بے ترتیبی پیدا کی جاتی ہے، انہوں نے کہاکہ طاقت کی تقسیم سماجی عمل ہے نہ کہ ابدی حقیقت ، انہوں نے کہاکہ جدید اُردو غزل میں جدید نظم کا بھی استعمال ہوا ہے، رخسانہ صبا نے “طویل نظم کی روایت اکیسویں صدی میں” پر اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ طویل نظم نظم نہیں بلکہ مختلف نظموں کا مجموعہ ہوتی ہے، دُنیا کی عظیم شاعری طویل نظموں کی ہی صورت میں موجود ہے، بیسویں صدی میں اُردو میں طویل نظموں کی ایک بڑی فہرست ہمارے سامنے آتی ہے، انہوں نے کہاکہ طویل اور مختصر نظم میں وہی فرق ہے جو ایک افسانے اور ناول میں ہے، طویل نظم ناقدانہ مزاج رکھتی ہے جبکہ مختصر نظم عاجزانہ مزاج رکھتی ہے، طویل نظم کی روایات اکیسویں صدی میںآگے بڑھی ہے، طویل نظم اپنے عہد سے جڑی ہوئی ہے مگر آزاد نظم کا تناسب زیادہ ہے، منظوم ڈرامہ گزشتہ صدی کی طرح اس صدی میں بھی نظر انداز ہوا ہے، انہوں نے کہاکہ طویل نظم اُجلت پسند نہیں ہے بلکہ قاری کو مثبت سوچ فراہم کرتی ہے۔
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ بارہویں عالمی اُردو کانفرنس کے دوسرے روز یارک شائر ادبی فورم اور آرٹس کونسل کے تعاون سے یارک شائر اعتراف کمال ایوارڈز کا انعقاد کیاگیا جس میں معروف شاعرہ شہناز نور اور شاعر کشمیر احمد عطاءاللہ کو یارک شائر کمال فن ایوارڈز صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ اور ایاز محمود نے پیش کیے۔ تقریب میں عنبرین حسیب عنبر، آفتاب مضطر، ڈاکٹر فاطمہ حسن، ثمن شاہ، ڈاکٹر نسیم انصاری، رضا علی عابدی بھی موجود تھے۔ تقریب کی نظامت غزل انصاری نے کی۔
About BLI News 3238 Articles
Multilingual news provider for print & Electronic Media. Interviews, Exclusive Stories, Analysis, Features, Press Conferences Photo & Video Coverage and Economic Reviews, Pakistan and Worldwide. Opinions, Documentaries & broadcast.