غزالہ خالد
لاہور کا دورہ بہت ہی اچھا گذرا لیکن اتنا لطف اندوز ہونے کے باوجود ایک عجیب سی بے کلی تھی جو لاہور میں محسوس ہوتی رہی، جس کو میں کوئی نام نہیں دے سکی۔ واپسی پر لاہور اور اس کے باسیوں کے لئے سدا شادو آبادرہنے کی دعائیں کرتےہم نے اپنے شہر کراچی کی راہ لی۔
ہماری واپسی ٹرین سے تھی، حیدرآباد پہنچے تو اس کے بعد کے سفر سے ہی اپنائیت کی خوشبو آنا شروع ہوگئی۔ اسٹیشن پر ایک پھیری والے کے منہ سےلینا ہو تو لو، نہیں لینا تو مت لو” سن کر بہت اچھا لگا ،ایسا لگا کہ کراچی کےوہ “دہی بڑے” جو لاہور پہنچ کر “دہی بھلے” ہوگئے تھے واپس “دہی بڑے” بنتے جارہے ہیں۔
کراچی کے قریب پہنچنے پر میں نے اپنی نظریں کھڑکی سے باہر جما دیں۔ ہر اسٹیشن پر پہنچنے سے پہلے شہر کے آثار نمودار ہونا شروع ہوجاتے ہیں سو کراچی کے بھی نمودار ہونا شروع ہوگئے۔ ’’کالے رنگ کو گورا بنائیں اور داغ دھبے جھائیاں دور کریں‘‘، ’’کمزور جسم کو موٹا کریں اور موٹے بدن کو پتلا‘‘، ’’فلانا عامل اور ڈھماکا پیر‘‘جو آپ کے تمام مسائل چٹکی بجاتے حل کرسکتا ہے قسم کے اشتہارات لکھی دیواریں نظر آنا شروع ہوگئیں۔
یقیناً لاہور ریلوے اسٹیشن سے پہلے بھی یہی کچھ دکھتا ہوگا لیکن چونکہ ہم نے جاتے وقت یہ بات نوٹ نہیں کی تھی، اس لئے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ہمارے اس مشاہدے کے پیچھے لاہور شہر کی وہ سیر تھی جب ہم نے لاہور کی دیواروں کو صاف ستھرا دیکھا تھا اب سمجھ میں آیا کہ لاہور شہر کے اندر لمبے سفر میں بوریت کیوں ہونے لگتی تھی، بھلا صاف ستھری دیواروں کو دیکھتے ہوئے مطالعے کے شوقین لوگوں کا سفر اچھا کیسے گذرسکتا ہے یہاں توآنکھ جھپکنے کی دیر تھی اور ایک نیا موضوع سامنے تھا، کراچی اسٹیشن آگیا۔
لاہوریوں کا ایک اور چھوٹا سا جملہ “نہ کریں” اپنے اندر وسیع معنی رکھتا ہے۔اکثرکراچی والے اس طرح کی صورت حال میں’’اتنی لمبی لمبی مت چھوڑ‘‘،’’ابے چل پھوٹ ‘‘قسم کے کلمات ادا کرتے ہیں۔
گاڑی رکتے ہی قلی آگیا، پیسے طے ہوئے، اس نے سامان اٹھایا اور یہ کہتا آگے روانہ ہوگیا ’’پیچھے پیچھے چلتے رہیں آگے جا کر سیدھے ہاتھ مڑوں گا‘‘ ،اس کے یہ کہنے پر لاہور کے قلی کے ’’سجے ہاتھ‘‘ اور ” کھبے ہاتھ ‘‘یاد آگئے اور بیساختہ ہنسی آگئی۔
واقعی بات چیت کا بھی ہر شہر کا اپنا انداز ہوتا ہے ۔لاہوری ہر لفظ کے آخر میں “جی” بولتے ہیں مثلاً “اچھا جی” “ہاں جی”، “بالکل جی” وغیرہ وغیرہ ،جبکہ کراچی، ایسا انڈسٹریل شہر ،جہاں سب تیز رفتاری کا شکا ’ابے چل جلدی کر،’’ابھی ایک چماٹ دونگا” کرتے نظر آتے ہیں ویسے یہی چماٹ لاہور میں “چپیڑ ” تھا لیکن یاد رہے کہ فرق صرف نام کا ہی ہے “چماٹ ” ہو یا “چپیڑ” دونوں ہی نانی یاد دلادیتے ہیں۔
ہم کراچی پہنچ گئے اسٹیشن سے نکلے تو ڈرائیور گاڑی لئے منتظر تھا کراچی کی خاص نمی والی گیلی گیلی ہوا اچھی لگ رہی تھی، گاڑی اسٹیشن سے نکلی تو اونچی اونچی عمارتوں کو دیکھ کر عجیب سا لگا ہر طرف فلیٹوں کی دنیا، لوگ، گاڑیاں،دھواں چھوڑتی آثار قدیمہ کا شاہکار بسیں،جن کو اگر فارنرز دیکھتے ہوں گے تو حیرت کے مارے انہیں کئی دن تک نیند نہیں آتی ہوگی کہ یہ چلتی بھی ہیں اور موٹر سائیکلیں تو اتنی کہ شمار مشکل ہے۔
اتنا بڑا شہر جہاں ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا جانا انتہائی مشکل اور پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابرہے تو لوگوں نے جیسے تیسے کرکے موٹر سائیکلیں خریدلی ہیں، تاکہ آنے جانے میں آسانی رہے اورسیکنڈ ہینڈ موٹرسائیکل اور گاڑی خریدتے وقت یہاں کے لوگ ایک ہی بات سوچتے ہیں کہ “بس چلتی ہو اور چلتی رہے باقی سب خیر ہے”۔ ظاہر ہے ٹریفک کا نظام بھی ویسا کا ویسا ہی تھا، جیسا ایک ہفتہ پہلے چھوڑا تھا لیکن ہر چیز کی طرح یہ بھی نیا نیا سا لگ رہا تھا، بےانتہا ٹریفک تھا ٹریفک جام میں پھنس کر خیال آیا کہ اگر کراچی میں سیرکرانے والے ڈبل ڈیکر بس سروس متعارف کی گئ تو وہ ایک ہی جگہ گھنٹوں پھنسی رہے گی اور سیاح قائد اعظم کے مزار سے آگے نہیں پہنچ پائیں گے۔
ڈرائیور کی غلطی پرہمارا چالان بھی ہوتے ہوتے بچا اور پولیس والے نے صرف پچاس روپےکے مک مکا پر چھوڑ دیا۔ حیرت کے مارے میرا تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا افسوس الگ ہوا کہ بے چارا اتنا مجبور ہے کہ اس کے لئے پچاس روپے بھی بہت ہیں۔
میری نظریں مسلسل باہر تھیں۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر، کھمبوں پر لٹکتے تاروں کے گچھے، ٹوٹی سڑکیں، آلودہ ہوا، بسوں میں لٹکے عوام، اسٹاپ پر کھڑی خواتین اور طالبات، ویگنوں کی چھتوں پر سفر کرتے نوجوان جو اتنے خوش نظر آرہے تھے جیسے ایئر کنڈیشن بسوں میں بیٹھے ہوں، سیپیج والی عمارتیں، ہارن کا شور، بھاگ دوڑ، افراتفری یہ سب مجھے خوشی دے رہے تھے، میری وہ بےنام سی بےکلی ختم ہوگئی تھی جو مجھے لاہور کی صفائی ستھرائی اور خوبصورتی کو دیکھ کر محسوس ہوتی تھی۔ مجھے اپنے بے ترتیب شہرکراچی، پر بے اختیار پیار آرہا تھا۔
میرا پیارا کراچی جو کروڑوں لوگوں کو روزگار دے رہا ہے، جو کروڑوں بھوکوں کو کھانا کھلا رہا ہے، جہاں پورے ملک سے محنت کش یہ سوچ کر آتے ہیں کہ کراچی جاکر ہم بھوکے نہیں مریں گے اور میرا کراچی ان کے اس بھرم کو ٹوٹنے نہیں دیتا۔
میرا کراچی جہاں خون کی ندیاں بھی بہیں اور آگ کے شعلے بھی دہکے، کبھی دہشت گردی کا شکار ہوا تو کبھی اپنے ہی باسیوں کے ہاتھوں تباہ و برباد کر دیا گیا، سینکڑوں بار لہولہان ہوکر بھی اپنے ملک کے کونے کونے سے آئے ہوئے محنت کشوں کو اپنے کمزور بازوؤں میں سمیٹ کر پھر اٹھ کھڑا ہوا۔
سب کا مان رکھا سب کے اس یقین کومظبوط کیا کہ کراچی ہمیں سنبھال لے گا۔ کراچی کی وہ پرانی دھیمی شائستہ یادیں آج بھی ذہن کے پردے پہ نقش ہیں. کوئی حکومت چاہے ووٹ کی خاطر ہی سہی اس کی طرف بھی نظر کرم کرلے۔ لاکھوں کروڑوں لوگوں کو روزگار دینے والے شہر کا حال کون بہتر بنائے گا اور کب اسے اس قابل کرے گا کہ یہ دوبارہ روشنیوں کا شہر کہلا سکے ہم اور آپ صرف دعا ہی کرسکتے ہیں ۔
کاش کہ صرف یہی نہیں کہنا پڑے کہ ’’کراچی” میں سمندر ہے‘‘۔ ہم بھی سر اٹھا کر کہہ سکیں کہ کراچی میں امن ہے، روزگار ہے، صفائی ہے، قانون ہے، ایک اچھا نظام ہے، تفریح ہے، سکون ہے ہمارا کراچی روشنیوں کا شہر ہے۔ دعا ہے کہ اس کے تمام مسئلے حل ہو جائیں۔