ایک اور افسوس ناک واقعہ!
اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی اسلام آباد میں گرفتاری کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم نے کراچی میں ان کے گھر پر تقریباً سات گھنٹے تک جو کارروائی کی، اس نے نیب کے کھاتے میں ایک اور ایسا واقعہ ڈال دیا ہے، جس پر لوگ افسوس اور شرمندگی کا اظہار کرتے رہیں گے۔ اگرچہ نیب کی طرف سے کوئی بھی وضاحت کی جائے لیکن پوری دنیا نے پاکستانی ٹی وی چینلز کی اسکرین سے یہ دیکھا کہ سندھ حکومت کے وزراء، ارکان سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلی، پیپلز پارٹی کے بڑے رہنما، عہدیداران اور کارکن آغا سراج درانی کے گھر کے دروازے پر بیٹھ کر نیب کے اس رویے پر احتجاج کر رہے ہیں۔ دنیا یہ بھی دیکھ رہی تھی کہ جس ضلع میں نیب کی ٹیم یہ کارروائی کررہی تھی، اس ضلع کی انتظامیہ باہر بے بس کھڑی تھی۔ صرف یہی نہیں، صوبائی حکومت بے بس تھی اور صوبائی وزراء زمین پر بیٹھے نعرے لگا رہے تھے۔ وضاحتیں اب کچھ بھی ہوں، سات گھنٹے تک جو کچھ ہوا، بحیثیت پاکستانی مجھے اس پر بہت افسوس ہے۔
نیب کی کارروائیوں کے نتیجے میں ایک افسوس ناک واقعہ اکتوبر 2018ء میں رونما ہوا، جب لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران اور یونیورسٹی کے چار سابق رجسٹرارز کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ ٹی وی اسکرینز پر یہ مناظر دیکھ کر پوری قوم میں غم وغصہ پیدا ہوا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس واقعہ کا ازخو نوٹس لیا تھا اور نیب کے اس اقدام کو انتہائی شرمناک عمل قرار دیا تھا۔ ڈاکٹر مجاہد کامران پر الزام کچھ بھی ہو لیکن وہ تھے تو استاد۔ نیب نے اس واقعہ کی بھی وضاحتیں پیش کی تھیں لیکن ڈی جی نیب لاہور نے ڈاکٹر مجاہد کامران سے جا کر ذاتی طور پر معافی مانگی تھی۔ اس کے باوجود نیب کے بارے میں جو تاثر پیدا ہوا، وہ اس معافی کے بعد اور زیادہ گہرا ہوگیا۔ پھر دسمبر 2018ء میں ایک اور انتہائی افسوس ناک واقعہ رونما ہوا، جب یونیورسٹی آف سرگودھا کے میاں جاوید احمد نیب کی حراست میں انتقال کر گئے اور انتقال کے بعد بھی انہیں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھی۔ ان دونوں واقعات کو دراصل قومی سانحات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ان دونوں واقعات کے بعد عدلیہ کی طرف سے یہ آواز اٹھی کہ نیب کے قوانین کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
تیسرا افسوس ناک واقعہ آغا سراج درانی کے گھر پر رونما ہوا۔ اس واقعہ سے دنیا کو یہ پیغام ملا کہ وفاقی حکومت کے احتساب کے ایک ادارے نے اپنی کارروائی کے لئے صوبائی حکومت اور انتظامیہ کو اعتماد میں نہیں لیا۔ اصولاً ہر وفاقی، صوبائی یا مقامی ادارے کو اپنی کارروائی سے قبل ہر سطح کی متعلقہ حکومت اور مقامی انتظامیہ کو آگاہ کرنا چاہئے۔ اگر ملک میں اس حوالے سے کوئی قانون نہیں ہے تو فوری طور پر ایسا قانون بننا چاہئے، جس میں اداروں کے مابین رابطے کا فقدان نہ رہے۔ سب سے تشویش ناک صورت حال یہ ہے کہ سندھ میں اس واقعہ سے بہت غلط پیغام گیا ہے۔ میرے خیال میں سندھ کی اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں بھی اس واقعہ کی حمایت میں بات نہیں کریں گی۔ پیپلز پارٹی پر یہ الزام لگانا آسان ہے کہ وہ سندھ کارڈ کھیل رہی ہے لیکن الزامات سے سارے مسئلے حل نہیں ہوتے۔ لوگ جو محسوس کر رہے ہوتے ہیں، وہ کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی والوں کا صرف یہ کہنا کافی ہے کہ قانون سب کے لئے ایک جیسا ہونا چاہئے۔ یہ سندھ کارڈ تو نہیں ہے۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں احتساب کے عمل کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا ہورہے ہیں۔ اس کا تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں احتساب کے عمل یا کرپشن کے خلاف مہم نے کبھی بھی عوام میں اپنا اعتماد پیدا نہیں کیا۔ احتساب کے ہر عمل اور کرپشن کے خلاف ہر مہم کے پس پردہ سیاسی مقاصد زیادہ دیر تک چھپے نہ رہ سکے۔ آج اگر ہم یہ تصور کرلیں، جیسا کہ ماضی کے لوگ بھی تصور کرلیا کرتے تھے کہ احتساب کا عمل شفاف اور جانبدارانہ ہے تو ہمارے اس تصور کو یقین میں بدلنے کے لئےبہت کچھ کرنا ہو گا کیونکہ ماضی کے تجربات ہی ابھی غلط ثابت نہیں ہوئے۔
نیب کے چیئرمین اور نیب میں کام کرنے والے دیگر لوگوں کی نیت پر شک نہیں کیا جانا چاہئے لیکن اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ نیب کے قانون کو تبدیل کرنے کے لئے سیاسی حلقوں سے ہٹ کر بھی دیگر حلقوں میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ دیگر قوانین میں ملزمان کو جو حقوق حاصل ہیں، وہ نیب قانون میں سلب کر لئے گئے ہیں۔ الزام کو غلط ثابت کرنے کا بوجھ اس قانون کے تحت ملزم پر ہے، جو انصاف کی روح کے منافی ہے۔ پاکستان کے غریب سے غریب آدمی پر بھی آمدنی سے زائد اثاثے رکھنے یا زندگی گزارنے کا الزام عائد کیا جا سکتا ہے۔ نیب قانون کے تحت ضمانت حاصل کرنے کا بھی وہ حق حاصل نہیں ہے، جو دیگر قوانین میں ہے۔ اس طرح نیب قانون میں بے شمار ایسی باتوں کی قانون دانوں نے نشاندہی کی ہے، جو انصاف کے تقاضوں کے منافی ہیں۔ جب تک نیب کا یہ قانون موجود ہے، ایسے واقعات بلکہ سانحات رونما ہوتے رہیں گے، جن سے احتساب کے عمل یا کرپشن کے خلاف مہم پر لوگوں کا اعتماد ختم ہوتا جائے گا۔ میں پھر کہہ رہا ہوں کہ چیئرمین نیب یا نیب کے دیگر افسروں کی نیتوں اور کردار پر شک کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ قانون کو بدلنے کی آواز کو سنا جائے۔ اس آواز میں یہ پیغام ہے کہ انصاف کے بنیادی تقاضوں کو نظر انداز کر کے نہ تو احتساب ممکن ہے اور نہ ہی کرپشن کا خاتمہ ہو گا۔ آغا سراج درانی کے گھر پر رونما ہونے والے واقعہ کے بعد اس سوال پر بھی بحث ہونی چاہئے کہ کرپشن سے نمٹنا آئین کے مطابق صوبائی معاملہ ہے یا وفاقی۔ کرپشن کو ضرور ختم ہونا چاہئے لیکن اس مہم کو کامیاب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مہم کے دوران جو رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں، وہ فوری دور ہوں اور قوانین میں جن سقم اور کوتاہیوں کی نشاندہی ہو، ان کا بھی فوری خاتمہ ہو۔