کراچی (عمران مندرہ) اقبال یوسف کی کتاب “پاکستان پیپلز پارٹی کے پچاس سال، 1967-2017” کی تقریب رونمائی آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقد ہوئی۔جس کی صدارت نوابزادہ یوسف تالپور، نے کی جبکہ قاضی اسد عابد، خادم علی شاہ، این ڈی خان، عبدالرزاق سومرو، ناز بلوچ، نفیسہ راجہ ، سعدیہ راشد، مسرور احسن، محمود شام، مقصود یوسفی ، مظہر عباس اورمحمد احمد شاہ صدر آرٹس کونسل کراچی نے خطاب کیا۔ کتاب میں ، پاکستان پیپلز پارٹی کی پچاس سالہ جدوجہد کا احاطہ کیا گیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نوابزادہ یوسف تالپور نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی شہید ذولفقار علی بھٹو کی نظریات کو لے کر چل رہی ہے۔ ہم نے دو عامروں سے جمہوریت ، انسانیت اور امن کے لیے جنگ لڑی ، اور بھٹو خاندان نے اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دو مقبول عوامی رہنما?ں ذولفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کو قتل کیا گیا اور یہ سب اس لیے کیا گیا کہ پاکستان سے پیپلز پارٹی ختم ہو جائے مگر ایسا نہیں ہوا اور تاریخ گواہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے ہر دور میں عوام کا ساتھ دیا اور مسلسل محنت اور لگن سے عوام میں مقبول رہی۔ بھٹو عوام کے قریب رہنا پسند کرتے تھے اور یہی عادت محترمہ کی بھی تھی ، سانحہ کارساز کے بعد وہ خود انتہائی رسک اور منع کرنے کے باوجود زخمیوں کی عیادت کرنے ہسپتال پہنچ گئی تھیں۔ اسد عابد نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی بغیر لیڈرشپ کے بھی اسی بھر پور جذبے کے ساتھ کام کرتے رہی جب بھٹو صاحب اور پھر بینظیر کو شہید کیا گیا پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی سعی لاحاصل کی گئی یہ بھٹو صاحب کی تعلیمات کا ہی نتیجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے تمام کارکنان و رہنما ہمیشہ پیپلز پارٹی سے مخلص رہے اور انتہائی مشکل حالا ت میں بھی پیپلز پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ خادم علی شاہ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے پچا س سالہ دور پر نظر ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی مشکلات کا شکار ضرور ہوئی مگر نوجوان بے نظیر بھٹو نے اس وقت اپنے وڑن اور پالیسی کی مدد سے پیپلز پارٹی کو سہارا دیا۔ ہم نے وہ دور بھی دیکھا کہ جب ایک طرف تو پیپلز پارٹی کے مقبول ترین لیڈر کو پھانسی دے دی گئی تھی تو دوسری طرف ان کے بچوں کو ملک بدر کیا ہوا تھا اور نسرت بھٹو نظر بند تھیِں۔ انہون نے اقبال یوسف کا اس کتاب کے لکھنے پر شکریہ ادا کیا۔ این ڈی خان نے کہا کہ بھٹو نے امریکہ کی پالیسی کے خلا ف جاتے ہوئے ایک طرف ایٹمی پروگرام شروع کیا تو دوسری جانب انہوں نے مسلم ریاستوں کو متحرک کرتے ہوئے پہلی اسلامک کانفرنس کروائی جس کی پاداش میں انہیں ایک ناکردہ جرم کی سز دی گئی۔ عبدالرزاق سومرو اور مسرور احمد نے پاکستان پیپلز پارٹی کے پچاس سالہ دور پر عمومی تجزیہ کیا، مسرور احمد نے کہا کہ بے نظیر کو جب مشرف کے دور میں جلاوطن کیا گیا اور جب وہ واپس آنے لگیں تو انہیں پہلے ہی منع کیا گیا کہ سیکورٹی رسک ہے مگر اس کے باوجود وہ پاکستان واپس آئیں، ناز بلوچ نے کہا کہ شہید بھٹو نے ہم سب کی زندگی پر بہت زیادہ اثرات مرتب کیے۔ آج ہم پیپلز پارٹی کے پچاس سال پر کتاب دیکھ رہے ہیں آنے والا مورخ پیپلز پارٹی کے سو سال پر بھی کتاب تحریر کرے گا۔ اس موقع پر محمود شام اور مظہر عباس نے پاکستان پیپلز پارٹی کے مختلف ادوار پر روشنی ڈالی اور ان کو حاصل مختلف مواقعوں اور غلطیوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی۔ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے پچاس سال پر لکھی گئی یہ کتاب ایک بہترین سنگ میل ثابت ہو گی اور آئندہ آنے والی نسلوں کی پیپلز پارٹی کی جدوجہد اور تاریخی قربانیوں کو یاد رکھنے کا سبب بنے گی۔
برصغیر کے نامور ترقی پسند رہنما اور کمنسٹ پارٹی آف انڈیا کے پہلے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر اور ممتاز دانشورہ رضیہ سجاد ظہیر کی صاحبزادی نور ظہیر کی کتاب “at home in enemy land” کی تقریب رونمائی ہوئی۔ جس کی صدارت ر?وف نظامانی، وسعت اللہ خان اور نور ظہیر نے کی۔ کتاب معروف بھارتی مصنفہ اور فکشن رائٹر نور ظہیر کے پاکستان میں کئے گئے تین سفر ناموں کا مجموعہ ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وسعت اللہ خان نے کہا کہ عام آدمی دو آنکھوں سے دیکھتا ہے جبکہ ایک سیاح کے پاس ایک آنکھ اضافی ہوتی ہے جس سے وہ ایسی چیزیں دیکھ سکتا ہے جو عام آدمی نہیں دیکھ سکتا اور نور ظہیر کی یہ کتاب اس تیسری آنکھ سے دیکھے گئے واقعات پر مشتمل ہے۔ ر?ف نظامانی نے کہا کہ یہ ایک اہم کتاب ہے جو دونوں ممالک کی تہذیب اور ثقافت کے مختلف پہلوو ¿ں کو اجاگر کرتی ہے۔ نور ظہیر نے کتاب میں دو طرفہ آزادیوں کے حوالے سے بہت عمدہ بات کی ہے کہ دونوں اطراف کے غلاموں کو یہ لگتا ہے کہ وہ آزاد ہیں۔ پاکستان میں ان کے سفر کے دوران انہوں نے بہت سی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور ان کے یہ تین سفر نامے ان کے بطور مصنف ایشیائی فکشن اور سفرنامے میں ایک خوبصورت اضافہ ہیں۔ اس موقع پر مصنفہ نے کہا کہ پاکستان آ کر انہیں اپنے گھر سا لگتا ہے لوگوں سے ملنے والی محبت اور انسیت لازوال ہوتی ہے۔