اسلام آباد:
وزیر اعظم کے خصوصی مشیر برائے ریونیو ہارون اخترخان نے کہاہے کہ ٹیکس چوری میں پکڑے جانے والوں کو وزیراعظم بھی نہیں بچا سکے گا۔
ہارون اخترخان نے کہاہے کہ ٹیکس چوروں کیخلاف گھیرا تنگ کر دیا گیا اور ٹیکس چوری میں پکڑے جانے والوں کو وزیراعظم بھی نہیں بچا سکے گا لیکن اگرایف بی آر کے کسی افسر کی جانب سے کسی کو ناجائز پکڑا گیا تو وہ افسر بھی نہیں بچے گا۔ انہوں نے کہا کہ بے نامی جائیدادیں ضبط کرنے اور بے نامی جائیدادوں کے بینیفشل مالکان کا سراغ لگا کرانھیں سخت سزائیں دینے کا قانون رواں سال کے آخر تک نافذکردیاجائے گا تاہم اس قانون کیلیے رولز کا مسودہ تیارکرکے منظوری کیلیے وفاقی کابینہ کو بھجوایا جارہاہے جب کہ وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد بے نامی قانون کا اطلاق ہو جائے گا۔
وزیر اعظم کے خصوصی مشیر برائے ریونیو نے بتایا کہ دوسرے اداروں کی طرح فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں بھی کمزوریاں ہیں جنھیں دورکرنے کیلیے کام کیا جارہاہے مگراس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ایف بی آر بہت اچھا ادارہ ہے، اس ادارے کو درست لیڈرشپ ملتی رہی تو ترقی ملتی رہے گی۔ اگر غلط لیڈر شپ آئی تو ترقی کا سفر ریورس ہوجائے گا۔ رواں سال ابھی تک ایف بی آرکو11 لاکھ کے قریب انکم ٹیکس گوشوارے موصول ہوچکے ہیں اور حتمی اعدادوشمار موصول ہونے تک اس تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔
ایف بی آر ہیڈ کوارٹرز میں ’’ایکسپریس‘‘ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ایک سوال پر ہارون اختر نے بتایاکہ ٹیکس چوروں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، ایف بی آر میں اعلیٰ سطح کی تمام تقرریاں 100 فیصد میرٹ پرکی جا رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 5 ماہ کے دوران خام ریونیو گروتھ 20 فیصد جبکہ خالص ریونیو گروتھ 16.5 فیصد سے زائد رہی، لوگوں میں ٹیکس واجبات کی ادائیگی اور ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
ہارون اختر نے بتایاکہ ایف بی آرکے تمام افسران کو ہدایت کی گئی ہے کہ ٹیکس چوروں کے خلاف کارروائی ضرورکی جائے مگرکاروبار بند نہیں ہونا چاہیے، ایف بی آرکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ انفرادی ٹیکس دہندہ سے6 ارب ارب روپے کا ریونیو ریکورکیاگیا۔
ایک سوال پر ہارون اختر نے بتایاکہ اب تک 11 لاکھ کے لگ بھگ انکم ٹیکس گوشوارے وصول ہوچکے ہیں جوگزشتہ مالی سال کے اسی عرصہ کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہیں۔ ایکٹو ٹیکس پیئرز لسٹ کو مکمل ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے جس کے بعدگوشوارے جمع کرانیوالوں کی درست تعداد سامنے آتی ہے،اس لسٹ کے حساب سے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد ساڑھے تیرہ لاکھ ہے جبکہ پچھلے سال کیلئے ایکٹو ٹیکس پیئرز لسٹ کا ڈیٹا 28 فروری کو مکمل ہوگا جس میں یہ تعداد بڑھ کر15 لاکھ سے تجاوزکرجائے گی۔ رواں سال کیلیے ایکٹو ٹیکس پیئرزکی لسٹ کا ڈیٹا فروری میں مکمل ہوگا، اس وقت یہ تعداد بڑھ کر 17 سے 18 لاکھ ہوجائے گی۔
ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوںکی تعداد بڑھا کر ایک کروڑکرنے کے حوالے سے سوال پر ہارون اختر نے کہاکہ وزیراعظم نے یہ بات کمپیوٹرائز قومی شناختی کارڈ نمبرکو این ٹی این کا درجہ دینے کے تناظر میںکی ہے مگر یہاں تک پہنچنے میں ابھی وقت لگے گا، اصولی طور پر وزیراعظم کی بات درست ہے کہ 8 کروڑ شناختی کارڈ ہولڈرز میں سے ایک کروڑ لوگ انکم ٹیکس فائلر ہونے چاہئیں۔
ہارون اختر نے کہاکہ اینٹی منی لانڈرنگ کے حوالے سے چاروںٹیکس قوانین میں ضروری ترامیم متعارف کرائی گئی ہیں جس کے تحت چاروں ٹیکسوں میں سے کسی بھی ٹیکس چوری کی صورت میں انسداد منی لانڈرنگ قوانین کے مطابق کارروائی ہوسکتی ہے، منی لانڈرنگ کی روک تھام کیلیے بھی سخت اقدامات کیے گئے ہیں، اس مہم کے تحت موبائل فون،قیمتی دواؤں سمیت بہت سی اسمگل شدہ اشیا پکڑی گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایف بی آرکی سب سے بڑی کامیابی ٹاپ پوزیشنز پر میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاںہیں، ایف بی آرنے ملکی معیشت کو دستاویزی بنانے کیلیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں اور اوای سی ڈی کے ساتھ معاہدہ پر اگلے سال سے عملدرآمدشروع ہوگا۔ انھوں نے بے نامی جائیداد کیلیے قانون سے متعلق بتایاکہ لا ڈویژن نے نظرثانی شدہ رولزکے مسودے کی توثیق کردی ہے جو جلد منظوری کیلیے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا اورکابینہ سے منظوری کے بعد ان رولز کے اطلاق کا نوٹیفکیشن جاری کردیاجائے گا۔
ہارون اختر نے کہا کہ ایف بی آر نے قابل ٹیکس آمدنی رکھنے کے باوجود ٹیکس نہ دینے والے امیر ترین لوگوںکو عارضی رجسٹریشن نمبرجاری کرکے موقع پر ہی ٹیکس واجبات کے اسیسمنٹ آرڈر جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم انھیں عارضی اسیسمنٹ آرڈرکی خلاف اپیل کرنے کیلیے اسیسمنٹ میں متعین کردہ ٹیکس واجبات کی ڈیمانڈکا50 فیصدجمع کراناہوگا، یہ فیصلہ کراچی میں پائلٹ پروجیکٹ کے نتائج کومدنظررکھتے ہوئے کیا گیاکیونکہ جن امیر ترین لوگوں کونوٹس جاری کیے جارہے ہیں ان میں سے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ان نوٹسزکے جواب دیتے ہیں اورگوشوارے جمع کراتے ہیں جب کہ پائلٹ پروجیکٹ کی کامیابی کے بعداس کا دائرہ کار ملک کے دوسرے بڑے شہروں تک بڑھانے کی تجویز زیر غور ہے۔