کراچی کو 10 سال میں 10 ارب ڈالرز درکار ہوں گے
ورلڈ بینک نے کراچی کے انفرا اسٹرکچر اور خدمات کی فراہمی میں 10سال کے دوران 9 سے 10 ارب ڈالرز کی مالی معاونت کا تخمینہ لگایا ہے۔
یہ رقم ٹرانسپورٹ، فراہمی آب، صحت و صفائی اور میونسپل سالیڈ ویسٹ مینجمنٹ کے لئے درکار ہوگی۔
ورلڈ بینک رپورٹ کے مطابق کراچی ایک کروڑ 60 لاکھ کی آبادی کے ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جہاں معیار زندگی نہایت زوال پذیر ہے۔
شہر اقتصادی بدحالی کا شکار ہونے کے ساتھ بنیادی خدمات کی فراہمی انتہائی ناقص ہے۔
آلودگی نے سنگین صورت اختیار کرلی۔ تباہ کاریوں اور موسمی تبدیلیوں سے کراچی کو تحفظ حاصل نہیں۔ اقتصادیات پیچیدہ سیاسی نوعیت کی ہے۔ ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ زمین کے جھگڑے، جرائم، عدم تحفظ اور ایسے ہی معاملات نے شہر کے انتظام کو ایک چیلنج بنا دیا ہے۔
خدمات کی بجا آوری غیرواضح ہونے، ایک دوسرے کے حدود اختیار سے تجاوز اور شہری حکمرانی کی ذمہ دار مختلف ایجنسیوں میں عدم تعاون نے شہر کی صورتحال کو بدترین کر دیا ہے۔ وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر 20 ادارے کام کر رہے ہیں جو آپس میں مربوط نہیں ہیں۔
ان ایجنسیوں کے پاس کراچی کی 90 فیصد اراضی کا کنٹرول ہے لیکن انہیں ترقی دینے سے ہچکچاتے ہیں۔ منتخب بلدیاتی حکومتوں کا نظام کمزور اور صلاحیتیں محدود ہیں۔ انہیں اپنی خدمات بجا لانے کا تک اختیار نہیں ہے۔
کاموں پر زیادہ کنٹرول سندھ کی صوبائی حکومت کا ہے جس میں ماسٹر پلاننگ، بلڈنگ کنٹرول، واٹر اینڈ سیوریج، سالیڈ ویسٹ مینجمنٹ اور اراضی کی ترقی اور انتظام کے امور شامل ہیں۔
بلدیاتی حکومتیں مالی اعتبار سے نہایت کمزور ہیں۔ مالیات کے لئے مکمل دارومدار صوبائی حکومت پر ہوتا ہے۔