انگریز سیّاح، رچرڈبرٹن 1794ء میں کراچی آیا تھا، اُس زمانے کا کراچی کیسا تھا؟ اس بارے میں رچرڈ برٹن نے اپنے سفر نامے میں لکھا ہے’’ کراچی میں داخل ہوتے ہی بدبو سے ناک پَھٹنے لگتی ہے، یہاں کی تنگ و تاریک گلیوں سے سوائے گیڈر کے، کوئی دوسری بھاری شے گزر نہیں سکتی، صفائی کا کوئی مربوط نظام نہیں ہے، مکانوں کا گندا پانی کچی سڑکوں پر بہا دیا جاتا ہے- گندگی کو صاف کرنے کے کام پر بھنگی مامور نہیں کیے جاتے، چناں چہ صفائی کا کام بھنگیوں کے بجائے کتّے اور پرندے انجام دیتے ہیں‘‘۔ رچرڈ برٹن کے چوالیس سال کے بعد برطانوی فوج کے کیپٹن ہارٹ کا مشاہدہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ اس نے لکھا ’’ شہر کی گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ بہ مشکل دو گُھڑ سوار ایک ساتھ گزر سکتے ہیں۔ شہر میں صفائی اور نکاسیٔ آب کا فقدان ہے‘‘۔
ٹھیک224برس بعد، 17؍ مارچ 2018 ء کو کراچی میں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت لگی، کاش! اس موقعے پر رچرڈ برٹن موجود ہوتا، بہرکیف، ہم تصوّر کر لیتے ہیں کہ رچرڈ برٹن کی روح عدالت میں موجود ہے اور عدالتی کارروائی کا مشاہدہ کر رہی ہے، سندھ کے بڑے بڑے حاکم بھی عدالت میں موجود ہیں۔ رچرڈ برٹن کی روح اس وقت حیرت زدہ رہ گئی، جب اس نے سُنا، مُلک کے اعلیٰ ترین جج صاحب کہہ رہے ہیں ’’ کراچی اتنا گندا ہے کہ مَیں رات بھر مچھر مارتا رہا اور جس مچھر کو مارتا، اس میں خون بَھرا ہوتا، مچھر امیر یا غریب کو نہیں دیکھتا‘‘۔
عدالت کے طلب کرنے پر میئر کراچی پیش ہوئے اور کہا ’’ نالے بند ہیں، کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ ہر ضلعے میں کچرے کے پہاڑ بن رہے ہیں۔ تمام اختیارات اور وسائل سندھ حکومت کے پاس ہیں، فنڈز نہ ہونے کے باعث شہر کی صورت حال ابتر ہے، صفائی ستھرائی کا نظام ناقص ہے، کراچی شہر تباہ ہو چکا ہے‘‘۔
رچرڈ برٹن کی روح، تصوّر میں ماضی کے کراچی اور موجودہ کراچی کا موازنہ کرنے لگی، پھر اس نے سُنا کہ چیف سیکرٹری صاحب عدالت کو بتا رہے ہیں کہ شہر میں روزانہ 15 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے، جس میں سے ساڑھے چار ہزار ٹن کچرا سڑکوں پر پڑا رہ جاتا ہے۔ کچھ سڑکیں تو ایسی ہیں، جن پر گزشتہ چھے ماہ سے جھاڑو ہی نہیں لگائی گئی۔ پھر اس نے ایک دوسری آواز سُنی’’ بڑی بھیانک تصویر ہمارے سامنے آرہی ہے۔ جس ادارے کی جو ذمّے داری ہے وہ پوری کرے، ایک ہفتے کے اندر اندر کراچی صاف ہونا چاہیے‘‘۔
رچرڈ برٹن کی روح پھڑک اٹھی، جو صُورتِ حال دو صدیاں پہلے تھی، آج بھی تقریباً ویسی کی ویسی ہے، پھر یہ ایک ہفتے کی مدت…؟ بے اختیار اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔ اور پھر…ایک ہفتہ تو کیا، پندرہ دن گزر گئے کراچی کی سڑکوں کی جو صُورتِ حال تھی، سو رہی۔ کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بڑی بڑی شاہرائوں پر سیوریج کا گندا پانی بہہ رہا تھا، مگر کسی کو پروا نہ تھی۔
ایسے میں چارلس نیپئر یاد آگیا، سندھ کا انگریز فاتح، جس نے وطن واپسی کے موقعے پر اپنے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’کراچی تو عن قریب’’ مشرق کی ملکہ‘‘ ہو گی۔ اے کراچی ! جب تو اپنی شہرت کی بلندیوں پر پہنچے تو میری تمنّا ہے کہ مَیں تجھے ایک بار پھر دیکھ سکوں‘‘۔
غالباً چارلس نیپئر سے جگہ کا تعیّن کرنے میں غلطی ہوئی۔ اُسے کراچی کے بجائے دبئی کا نام لینا چاہیے تھا۔ بھلا یہ شہر’’ مشرق کی ملکہ‘‘ کیسے بن سکتا ہے، جس پر ایسے حکم راں مسلّط ہوں، جن کی ذہنیت صحرا نشین بدّوئوں سے بھی گئی گزری ہے۔ جن کی نیّتیں بھی صاف نہیں۔ جن کی آنکھوں پر تعصّب کی پٹی بندھی ہے، جو دودھ دینے والی گائے کا سارا دودھ ڈکار لینا چاہتے ہوں، مگر اس کے چارے، پانی، کا انتظام کرنے سے دُور بھاگیں۔ ذرا موجودہ اور ماضی کے حکم رانوں کا موازنہ کریں، عجب لوگ ہیں، تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ یہ شہر ایک بہترین بندر گاہ تھی، مگر اس کی حفاظت کے انتظامات نہ ہونے کے برابر تھے۔
منوڑا جزیرے پر ایک قلعہ موجود تھا، مگر ضروری فوجی سازو سامان سے خالی، سندھ میں متعین برطانوی ریذیڈنٹ ایجنٹ پوٹنجر، جس نے 1832ء میں کراچی کا دورہ کیا تھا، اپنے مشاہدات میں لکھتا ہے کہ’’ یہ قلعہ نہایت اہم مقام پرواقع تھا۔ اگر اس پر اچھی توپیں نصب ہوتیں اور تربیت یافتہ عملہ مقرر ہوتا، تو کوئی بھی غیر ملکی جہاز، بندر گاہ میں داخل نہیں ہو سکتا تھا۔‘‘ انگریزوں نے 1839ء میں اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کراچی فتح کر لیا تھا۔
موجودہ حکم راں بھی، ماضی کے حکم رانوں سے مختلف نہیں، اُن کے قلعے، آلاتِ حرب سے خالی تھے، تو اِن کے دل انصاف سے خالی ہیں۔ جب دلوں میں انصاف نہ ہو تو آپ دوسروں کے دل کس طرح جیت سکتے ہیں۔ ایک بہترین شہر پر آپ کا تسلّط ہے، اس کے وسائل آپ کے قبضے میں ہیں، تو اس کو اپنا شہر کیوں نہیں سمجھتے۔
بات یہ ہے کہ جس شہر سے حکمرانوں کو ووٹ نہ ملیں اور ان کا اکثریتی ووٹ بینک اندرون صوبے میں ہو تو اس شہر سے محبت کیسی، لگائو کیا؟ یہ تو ان کے لیے مقبوضہ یا مفتوحہ علاقہ ہوا۔ گلیوں میں کچرے کے ڈھیر ہوں، سڑکیں سوریج کے پانی میں ڈوبی ہوں، ہر روز ٹریفک جام رہے، جرائم پیشہ افراد دندناتے پھریں۔
ڈکیتیوں میں مال کے ساتھ عزّتیں بھی لٹ جائیں۔ لوگ اپنے ہی گھروں میں محفوظ نہ ہوں تو یہ مسئلہ اُن حکم رانوں کا تو نہ ہوا، جنہیں آپ نے ووٹ ہی نہیں دیے۔ جن کو آپ نے اپنے ووٹ کے قابل سمجھا، وہ تیس سال کے دَوران اپنی بے بسی، مجبوری جِتا جِتا کر اختیارات نہ ہو نے کا رونا روتے رہیں۔ پھر ٹکڑیوں اور ٹولیوں میں بٹ جائیں تو افتادگان اپنا ہی گریباں چاک نہ کریں تو کس کے گریباں پر ہاتھ ڈالیں۔
ایک چھوٹے قصبے سے ایک بڑے شہر میں تبدیل ہونے والے شہر پر ذرا ایک نگاہ ڈالیں۔ یہ کس طرح چاروں طرف سے کچی آبادیوں اور گوٹھوں میں گِھرا ہوا ہے۔ اصل کراچی نہ جانے کہاں کھو گیا۔ وہ شہر، جہاں 1813ء میں مکانات کی کُل تعداد تین ہزار، دو سو پچاس اور 1838ء میں مسلمان آبادی پانچ ہزار کے قریب تھی ۔ اب اس کے نواح میں صرف گزشتہ دس سال کے دوران پانچ ہزار سے زائد گوٹھ آباد ہو چکے ہیں۔ ان گوٹھوں کو بجلی، گیس، پانی کی فراہمی کے منصوبے بھی ترجیحی بنیادوں پر منظور کیے جاتے ہیں اور سرکاری فیس کی ادائیگی میں پچاس فی صد رعایت بھی دی جاتی ہے۔
بنیادی سہولتوں والے گوٹھوں میں ایک سو بیس گز کا پلاٹ دس لاکھ روپے سے زیادہ کا ہے۔ زمینوں پر قبضے نے باقاعدہ کاروبار کی شکل اختیار کر لی ہے۔ رفاہی اور تفریحی پلاٹس پر بھی قبضے کر لیے گئے ہیں۔ کچھ علاقوں میں یہ کام متعلقہ سرکاری محکموں اور پولیس کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔
کے ڈی اے نے ہل پارک کی زمین پر 42مکانات، چھے ہوٹل، دو مساجد، سوئمنگ پول اور تھیٹر کی الاٹمنٹ کی ہے۔ ضلع ملیر میں ایک بہت بڑا رہائشی منصوبہ سرکاری اور نجی اراضی پر زبردستی قبضہ کر کے بنایا جا رہا ہے، جہاں125 گز کے تجارتی پلاٹ کی قیمت ایک کروڑ روپے سے زائد ہے۔ جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والے ایجینٹس کا خیال ہے کہ آئندہ چند سال میں یہ قیمت چار سے آٹھ کروڑ ہو جائے گی۔
بلاشبہ چارلس نیپئر کی’’ مشرق کی ملکہ‘‘ کہلائے جانے کے قابل یہی علاقہ ہو سکتا ہے، لیکن اصل کراچی، جو لیاری اور اطراف کے علاقوں پر مشتمل تھا۔ اب بھی اسی قدر پس ماندہ ہے، جیسا کہ رچرڈ برٹن کے زمانے میں تھا۔ اگر فرق پڑا ہے، تو صرف اتنا کہ جھگیوں اور جھونپڑوں کی جگہ کثیر المنزلہ عمارات نے لے لی ہے، جہاں اکثر گلیاں آج بھی اس قدر تنگ و تاریک ہیں کہ ہنگامی صُورتِ حال میں آگ بجھانے والی گاڑیاں اور ایمبولینسز اندر نہیں جا سکتیں۔ ایک وقت تھا، کراچی کے نواح میں دو تین چھوٹے دریا بھی گزرتے تھے، جنہیں مقامی باشندوں نے ’’ندی‘‘ کا نام دے رکھا تھا۔
ایک ندی گھومتی گھامتی شہری حدود کےقریب سے گزرتی سمندر میں جا گرتی تھی۔ اس ندی کے دونوں کناروں پر کھیت اور پھل دار درختوں کے باغات تھے۔ یہ انتہائی سرسبز و شاداب علاقہ تھا۔ شہر کے لوگ سیر و تفریح کے لیے وہاں جایا کرتے تھے۔ مقامی باشندے اس کو’’ لیاری ندی‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ ندی کا پانی نہایت صاف و شفّاف تھا، جس میں ننّھی منّی رنگین مچھلیوں کی کثرت تھی۔ ندی کے دونوں کناروں پر کھیتوں اور باغات کا سلسلہ دور تک پھیلا ہوا تھا۔ اور آج کیا عالم ہے کہ لیاری ندی کی جگہ ایک نہایت متعفّن گندا نالا بہہ رہا ہے، جس کی بدبو اس قدر ہے کہ چند لمحے کھڑا ہونا بھی محال ہے۔ پانی کے اندر مُردہ جانور بہتے نظر آتے ہیں۔ نالے کے دونوں اطراف سبزے کا نام و نشان نہیں۔ باغات کی جگہ انسانی آبادیاں ہیں، جن کے مکین بدبو اور گندگی کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اسی بدبو میں بڑی سہولت سے روز مرّہ امور انجام دیتے رہتے ہیں۔
انگریزوں نے کراچی کی تعمیر و ترقّی کے لیے جہاں متعدّد کام کیے، وہاں اہم ترین کام یہ تھا کہ انھوں نے گندے اور برساتی پانی کی نکاسی کے لیے بڑے بڑے کشادہ نالے تعمیر کیے، لیکن ایک نالا بھی لیاری ندی کے اندر نہیں گرتا تھا، سارے نالے براہِ راست سمندر میں جا کر گرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لیاری ندی کے قدرتی حُسن پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ اس کا شاداب ماحول اسی طرح برقرار رہا، اس کے دونوں کناروں کے باغات طرح طرح کے پرندوں کا مسکن بنے رہے، لیکن جب مقامی باشندوں کو اقتدار ملا اور وہ آزادی کی نعمت سے بہرہ مند ہوئے، تو نئے ملک کے دارالحکومت، کراچی میں آباد کاری کے نام پر بستیاں بسانے والے ادارے، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے احمق اور جاہل افسروں نے ان بستیوں کے گندے پانی کی نکاسی کے لیے کوئی نیا نظام قائم کرنے کے بجائے لیاری ندی کو ایک قدرتی ذریعہ سمجھ کر، ان تمام بستیوں کا سیوریج سسٹم، ندی سے ملا دیا۔
اس طرح وہ ندی، جو قدرت کا ایک حسین شاہ کار تھی، ایک گندا نالا بن گئی۔ رہی سہی کسر کناروں پر آباد ہونے والی غیر قانونی کچی بستیوں نے پوری کر دی، انسانی دست برد سے ندی سکڑتی چلی گئی۔ صنعتی کارخانوں اور فیکٹریوں کا آلودہ زہریلا پانی روک ٹوک کے بغیر ندی میں پھینکا جانے لگا، جس سے ندی کی آبی حیات کا خاتمہ ہو گیا۔ ندی کا کوئی والی وارث نہ رہا۔ گرچہ بلدیہ تھی، صوبائی اور وفاقی حکومتیں بھی تھیں۔ لیکن کسی نے لیاری ندی کو اپنا نہیں سمجھا۔ یہ ایک آزاد علاقہ تھا، قوانین اور ہر قسم کی عمل داری سے مکمل آزاد، جس کا دل چاہے جگہ گھیرے، کارخانے لگائے یا بھینسوں کا باڑہ قائم کر لے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ کچرے سے بھرے بھاری بھاری ٹرکس، سارا کچرا ندی کے اندر ڈال رہے ہوتے ہیں۔ اور پھر کچرے سے کار آمد چیزیں تلاش کر کے کچرے کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ جس کا زہریلا کثیف دھواں چاروں طرف آبادیوں میں پھیل جاتا ہے۔ ناکارہ ٹائروں کو جلا کر ان میں سے دھاتی تار نکالنے کا کام بھی جاری نظر آتا ہے اور یہ سارا زہریلا صنعتی فضلہ، سمندر میں جا کر سمندری حیات اور ماحول کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔
انگریزوں کو داد دینی چاہیے کہ اُنہوں نے کس طرح ایک اجنبی سر زمین کے لوگوں کے حالات بدلنے اور ایک گندے شہر کو صاف ستھرا بنانے کے لیے پوری تن دہی اور انصاف کے ساتھ کام کیا اور اسے ایشیا کا صاف ستھرا شہر بنانےمیں کام یاب ہو گئے، لیکن وہ لوگ جو اس سر زمین کے اصل وارث و مالک ہیں، فرزندِ زمین ہیں، اس شہر کو دوبارہ تاریکیوں میں دھکیل رہے ہیں۔ ذرا سی بارش ہوتی ہے، پورا شہر ڈوب جاتا ہے۔ شہر میں نکاسیٔ آب کے لیے 41 چھوٹے بڑے نالےہیں، لیکن سب کے سب کچرے اور تجاوزات سے اَٹے پڑے ہیں۔
جن نالوں سے تجاوزات ہٹائی بھی جاتی ہیں، تو فوری دوبارہ قائم ہو جاتی ہیں۔ آئے دن معصوم بچّے گندے نالوں میں گر کر جاں بہ حق ہو جاتے ہیں، مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ سندھ کا نیا وزیرِ اعلیٰ حلف اٹھاتا ہے۔ دو مہینے میں شہر کو صاف کرنے کا حکم دیتا ہے، شہر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ایک سو دن کے اندر شہر صاف کرنے کی مہم کا آغاز کرتی ہے۔ مدّت پوری ہو جاتی ہے، مگر شہر کی حالت جوں کی توں رہی۔ سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور واٹر کمیشن میں برسوں سے شہر کے حوالے سے سماعتوں کا سلسلہ جاری ہے، مگر ٹھوس اقدامات کہیں نظر نہیں آتے۔
کوئی بھی ادارہ سنجیدگی سے کام کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ متعدّد مرتبہ شہر سے تجاوزات کے خاتمے کا حکم دے چکی ہے، لیکن پورا شہر آج بھی تجاوزات سے گِھرا ہو اہے۔ کمشنر کراچی کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ٹھیلوں اور پتھارے والوں سے ڈیڑھ کروڑ روپے یومیہ بھتّا وصول کیا جاتا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ چوں کہ یہ بھتّا معمولی کانسٹیبل سے اعلیٰ ترین سطح تک پہنچتا ہے، اس لیے تجاوزات کا کبھی بھی خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ یہی حال کچرے کا ہے۔ اس کچرے سے نہ صرف پاکستانی حکّام بلکہ کچھ غیر مُلکی کمپنیز کا بھی مفاد وابستہ ہو گیا ہے۔
واٹر کمیشن کی ایک حالیہ سماعت کے موقعے پر کمیشن کے سربراہ، جسٹس(ر) امیر ہانی مسلم نے کچرا اٹھانے والی غیر مُلکی کمپنی کے سربراہ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ صرف پیسے لے رہے ہیں، کام نہیں ہو رہا۔یہ مفت کا پیسا نہیں ہے۔ کمیشن نے کراچی کے ضلع جنوبی اور مغربی میں کام کرنے والی چینی کمپنی کو رقم جاری نہ کرنے کا حکم برقرار رکھا ہے۔
ہر آنے والے دن کے ساتھ کراچی کو اُصولی طور پر ترقّی کی نئی منزلوں کی طرف گام زن ہونا چاہیے تھا، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ ترقّی کی راہیں مسدود کرنے کے لیے اس شہر کے باسیوں کو سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ کچرے، تجاوزات، پینے کے پانی کی عدم فراہمی، لوڈ شیڈنگ، ٹریفک جام اور اس نوع کے دیگر غیر اہم مسائل میں دانستہ طور پر الجھا دیا گیا ہے تاکہ وہ اپنی توانائیاں شہر کی ترقّی کے لیے استعمال نہ کر سکیں اور اُن کی تمام تر صلاحیتیں، اِن ہی مسائل سے نمٹتے نمٹتے ختم ہو جائیں۔