کراچی (عبدالستار مندرہ)صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے کہا ہے کہ پاکستانی فلم انڈسٹری کی ترقی کیلیے ایک خودمختار پروڈکشن ہاو ¿س کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، فلم اکیڈمی بھی بنائی جارہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی لٹریچر فیسٹیول کے سیشن بعنوان “پاکستانی سینما: ماضی، حال اور مستقبل” میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سینما گھروں کی تعداد صرف 140 ہے جبکہ بھارت میں 4500 سے زاید سینما گھر ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سینما گھر فلمی صنعت کا پہیہ چلانے کیلیے ضروری ہیں مگر ہمارے یہاں برسوں قبل سینما گھروں کو مسمار کرکے پلازے تعمیر کردئیے گئے۔ انہوں نے نامور پروڈیوسرز، ڈائریکٹرز اور انڈسٹری سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی موجودگی میں خواہش ظاہر کی کہ پاکستان میں سالانہ 52 فلمز تو بننی چاہئیے ہیں تاکہ شائقین ہر ہفتے ایک نئی فلم دیکھ سکیں۔ سیشن میں موجود سینئر فلمساز ستین آنند نے کہا کہ ہمارا المیہ ہے کہ ہر دور میں پاکستانی فلمی صنعت کو زوال کا شکار کہا جاتا ہے مگر پچھلے چند برس میں ہماری فلم نے ترقی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شعیب منصور کی 2007 میں بنائی گئی فلم “خدا کے لیے” کے بعد ہمارا فلم بنانے کا ٹرینڈ بتدریج تبدیل ہورہا ہے اور اب غیرروایتی فلمیں بن رہی ہیں جو کہ ایک مثبت پیشرفت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات سے انکار نہیں کہ فلمی صنعت کو مشکلات رہیں، سینسرشپ کا مسئلہ درپیش رہا لیکن اب حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں نوجوان فلم ڈائریکٹر نبیل قریشی نے کہا کہ فلم میں اسکرپٹ کی اہمیت سب سے زیادہ ہے، مرکزی کردار چاہے لڑکی کا ہو یا لڑکے کا، کہانی سب سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلم کا کوئی فارمولہ نہیں ہوتا، ایک ہی تکنیک سے فلم بنائی جائے تو ناظرین کو وہ پہلے جیسی کہانی معلوم ہوتی ہے۔ سینئر اداکار آصف رضا میر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملٹی پلکس سینما نے ناظرین کیلیے آپشنز کو وسعت دی ہے۔ پچھلے برس عید پر فلمز جوانی نہیں آنی، پرواز ہے جنون اور لوڈ ویڈنگ ریلیز ہوئیں۔ مختلف موضوعات پر بننے والی ان تینوں فلمز کو شائقین نے بےحد پسند کیا۔ نوجوانوں میں تیزی سے مقبولیت حاصل کرنے والے اداکار یاسر حسین نے کہا کہ ٹی وی چینلز کے پروڈکشن ہاو ¿سز کے فلم بنانے کی وجہ سے فلم کی اصل روح متاثر ہورہی ہے اور فلم میں ڈرامے کا عنصر شامل ہورہا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ٹی وی چینلز کے بینر تلے فلمز نہیں بننی چاہئیں۔ پاکستانی سینما کیلیے منعقد کیے گئے اس خصوصی سیشن میں معروف اداکار منور سعید اور پروڈیوسر فضا علی نے بھی اظہارِ خیال کیا۔
معروف اداکار اور کامیڈین شہزاد رضا نے کہا کہ فنکار کو جب عزت سے نوازا جائے تو اس میں کام کی لگن پیدا ہوتی ہے۔ شوبز کی لائن میں سب سے پیچھے کھڑا ہوتا ہوں، اس کا فائدہ یہ ہے کہ آگے کھڑے ہونے والے نظر میں رہتے ہیں اور آج بھی ان سے سیکھتا ہوں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کے زیرِاہتمام اپنے اعزاز میں منعقد کی گئی تقریب میں کیا۔ شہزاد رضا نے شوبز انڈسٹری میں اپنی آمد کے حوالے سے بتایا کہ کاظم پاشا صاحب مجھے ٹی وی پر لے گئے اور اقبال لطیف صاحب نے ٹی وی پر میرے کام کی حوصلہ افزائی کی۔ تقریب میں شوبز کی کئی نامور شخصیات شریک تھیں۔ بہروز سبزواری نے شہزاد رضا کے لیے کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی تمام مصروفیات صرف ان کے لیے ترک کرکے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ساتھ 46 برس کا ہے۔ شہزاد رضا نرم دل انسان ہے، اس نے ہمارے استاد قاضی واجد کی جتنی خدمت کی ہے وہ میں بھی نہیں کرسکا۔ اداکار دانش نواز کا کہنا تھا کہ شہزاد رضا کامیڈی کی دنیا کے بےتاج بادشاہ ہیں، میں انہیں اپنا استاد مانتا ہوں اور آج بھی ان کے پرانے ڈرامے دیکھتا ہوں۔ علی حسن، انور اقبال، ایاز خان، ایوب کھوسہ، رو ¿ف لالا، ندیم ظفر، اقبال لطیف، سید سعادت جعفری اور سلیم آفریدی نے بھی اظہارِ خیال کیا۔ بشریٰ انصاری نے کہا کہ شہزاد رضا کا نام سنتے ہی لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔ عمر شریف طبعیت کی ناسازی کے باعث تقریب میں شرکت نہ کرسکے مگر ٹیلیفون پر اپنے ساتھی فنکار کے لیے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہزاد ایک مکمل آرٹسٹ ہے جس نے ٹی وی، ریڈیو اور تھیٹر تینوں فارمیٹس میں بہترین کام کیا۔ شہزاد رضا نے اعترافِ کمال کی یہ تقریب سجانے پر صدر آرٹس کونسل اور دیگر منتظمین کا شکریہ ادا کیا۔ صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے شہزاد رضا کو گلدستہ پیش کیا جبکہ انہیں یادگاری شیلڈ سے بھی نوازا گیا۔
غزل گائیکی میں منفرد مقام رکھنے والے استاد احمد علی خان کی 19ویں برسی پر انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے آرٹس کونسل میں محفل موسیقی کی تقریب سجائی گئی۔ تقریب میں استاد احمد علی خان کے صاحبزادوں کرم عباس خاں اور رحمت عباس خاں نے خصوصی شرکت کی اور اپنی پرفارمنس سے شرکا پر وجد کی کیفیت طاری کردی۔ کلاسیکل موسیقی پیش کرنے والے دیگر فنکاروں میں استاد فتح علی خاں، نفیس احمد خاں، سلمان علوی، عمران عباس خاں، وسیم عباس خاں، احمد علی جونیئر، اسحاق خاں (ہارمونیم) شامل تھے۔ اثرانگیز کلام اور فنکاروں کی شاندار پرفارمنس پر شرکا نے محفل کو یادگار قرار دیا۔ تقریب کے آخر میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے فنکاروں کو استاد احمد علی خان کے لیے نذرانہ ءعقیدت پیش کرنے پر سراہا۔ انہوں نے کہا کہ کرم عباس خاں اور رحمت عباس خاں کی خوش قسمتی ہے کہ وہ اپنے والد گرامی کے فن کو آگے لے کر بڑھ رہے ہیں، ان کی آواز استاد احمد علی خان کی یاد دلاتی ہے۔