کراچی( اسپورٹس رپورٹر) حکومت کی جانب سے کئے جانے والے وعدے وفا نہیں ہوسکے،باکسنگ کا کھیل اسپانسرز کے بغیر ممکن نہیں،کوریا سمیت کئی ممالک کی جانب سے شہریت دینے کی آفر ہے لیکن سب سے پہلی ترجیح پاکستان ہے تاہم ملک میں باکسنگ کی سرپرستی نہ کی گئی تو اپنے بچوں کو باکسنگ نہ کھیلنے کا مشورہ دونگا ،وزیراعظم کی جانب سے میرے لئے منظور کردہ فنڈمیں پاکستان اسپورٹس بورڈ کی بد نیتی نظر آرہی ہے ،حکومت نظر اٹھاکے دیکھے ملک میں کرکٹ کے علاوہ اور بھی بہت سے کھیل ہیں جس میں کھلاڑی کامیابیاں حاصل کررہے ہیں،بلوچستان حکومت نے بارتوں اور فوٹو سیشن کے سوا کچھ نہیں کیا، یہ بات پاکستان کے پہلے ڈبلیو بی سی (WBC)سلور فلائی ویٹ ٹائٹل جیتنے والے باکسر محمد وسیم نے کراچی پریس کلب کے اشتراک سے اسپورٹس جرنلسٹ ایسوسی ایشن سندھ (سجاس )کی جانب سے دیئے گئے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔محمد وسیم کو سجاس کے صدر طارق اسلم نے یادگاری شیلڈ،سیکریٹری محمد اصغر عظیم نے گلدستہ اور پریس کلب کیجانب سے ممبر گورننگ باڈی شمس کیریو نے اجرک کا تحفہ پیش کیا۔انٹر نیشنل پروفیشنل باکسر محمد وسیم نے کہا کہ مجھ سے جو وعدے کئے گئے ان کو پورا نہیں کیاگیا۔اب تک پشاور زلمی کے صدر جاوید آفریدی نے تعاون کیا ہے جس پر میں ان کا شکر گزار ہوں۔انہوں کہا کہ باکسنگ بڑامشکل کھیل ہے اس میں دماغ کا حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے۔WBCکا ٹائٹل پہلے بھی جیتا تھا اب بھی محنت کرکے نام کمایا اور پاکستان کا پرچم بلند کیا اب ورلڈ ٹائٹل کی تیاری کر رہا ہوں امید ہے اس میں بھی ملک کا نام روشن کروں گا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کھیلوں سمیت ہر چیز میں سیاست ہے جس کی وجہ سے پاکستان آج کھیلوں میں سب سے پیچھے ہے۔سب سے برا حال باکسنگ ٖفیڈریشن کا ہے جہاں باکسنگ کے بجائے سیاسی لوگ بر اجمان ہیں جن کو باکسنگ کے متعلق علم ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان باکسنگ میں کہیں نظر نہیں آرہا۔حکومت سے کہا ہے کہ مجھے اکیڈمی بناکر دے میں خود لڑکوں کو باکسنگ سکھاؤں گا۔ آخری فائٹ میں بڑا کلوز مقابلہ تھا میں صرف ایک پوائنٹ سے جیتااور اپنے ٹائٹل کا دفاع کیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اسپانسرز کے بغیر باکسنگ سمیت کوئی بھی کھیل ترقی نہیں کرسکتا،باکسنگ بڑا مہنگا کھیل ہے جو اسپانسرز کے بغیر ممکن ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھے کوریا سمیت کئی ممالک سے شہریت کی آفرز ہیں لیکن میں پاکستان کے لئے کھیلانا چاہتا ہوں۔ چار پروفیشنل باکسنگ میں میرے ساتھ اسپانسرز تھے تاہم ان کی جانب سے بار بار منع کرنے کے باوجود میں نے پاکستانی پرچم اپنے سے جدا نہیں کیا ،جب بھی رنگ میں اترتا ہوں میرے ایک کندھے پر پاکستان اور دوسرے پر کوریا کا جھنڈاہوتا ہے ،تاہم اس بار پاکستانی پرچم اپنے سے جدا نہ کرنے پر اسپانسرز ناراض ہوگئے ہیں ،محمد وسیم کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے میرے لئے ڈھائی کروڑ سے زیادہ پیسے کی منظوری دی لیکن اس فنڈ ز کے استعمال کے لئے پاکستان اسپورٹس بورڈ جو طریقہ اپنا رہا ہے اس میں اس کی بد نیتی نظر آرہی ہے،پی ایس بی منظور کردہ فنڈ میرے حوالے کرے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں باکسنگ کی یہ ہی صورتھال رہی تو میں اپنے بچوں کو باکسنگ میں نہ آنے کا مشورہ دونگا ۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی بلوچستان سردار ثناء اللہ زہری سے تین سے چار بار ملاقات کی لیکن وہ اپنے وعدے کا پاس نہیں رکھ سکے اور بات ملاقاتوں اور فوٹوسیشن سے ٓگے نہ بڑھ سکی ،پروفیشنل باکسر نے شکوہ کیا کہ ملک میں حکومت اور اسپانسرز کو صرف کرکٹ ہی نظر آتاہے جبکہ کرکٹ اولمپک گیم بھی نہیں ہے ،کسی اور کھیل میں جتنی بڑی کامیابی حاصل کر لیں حکومت آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھتی،ہر کھلاڑی اپنی کامیابی پر اتنا ہی توجہ اور ستائش کا حق دار ہے جتنا کہ ایک کرکٹرز ہوتا ہے،ایک سوال کے جواب میں محمد وسیم نے کہا کہ تربیت کے باعث رنگ کے اندر کھیلنا آسان لیکن رنگ کے باہر کے ماحول سے لڑنا مشکل کام ہے ،