پاکستانی مشن کے قونصلریاسر عمارنے مزید کہا کہ سیاسی مصلحت اور اقتصادی فوائد کی خاطر عدم پھیلاﺅ کے اصول لاگوکرنے سے صورت حال مزید پیچیدہ ہو گی ۔
پاکستان کی جانب سے جوہری ممانعت کی صلاحیت کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے قیام کے ابتدائی 25سالوں میں پاکستان کو 3بڑی جنگوں کا سامنا کرنا پڑا، روائتی فوجی غلبہ اوربنیادی تنازعات حل کرنے یا ہماری سرحدوں کی سیکیورٹی اور حرمت کو یقینی بنانے میں بین الاقوامی برادری کی ناکامی سمیت پاکستان کےلئے جنوبی ایشیا ءمیں امن و امان قائم کرنے کی خاطر جوہری ممانعت کی صلاحیت کو فروغ دینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں چھوڑا گیا ۔
پاکستان نے ”جوہری ہتھیاروںیادیگر دھماکہ خیز جوہری ڈیوائسز کیلئے ایٹمی مواد کی پیداوار پر پابندی کے معاہدے “ کے عنوان سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے خلاف ووٹ دیا اور 2014-15کے درمیان کام کرنے والے گروپ آف گورنمنٹل ایکسپرٹس (جی جی ای ) میں شرکت نہیں کی اور اس قرار داد کی مطابقت سے 25رکنی ہائی لیول ایف ایم سی ٹی ایکسپرٹ پریپریٹری گروپ میں شریک نہیں ہو گا ۔
پاکستان کی جاب سے موجودہ سٹاک اور گزشتہ پیداوار کا احاطہ کرنے والے ایٹمی مواد کے معاہدے پر رضامندگی کے اظہار پر انکا کہنا تھا کہ ہمارا یقین ہے کہ اس قسم کا معاہدہ پاکستان کے مفاد میں ہوگا کیونکہ اس سے قومی ایٹمی مواد کی ممانعت کے حوالے سے ہمارے عدم تحفظ کے خدشات کا احاطہ ہو گا ۔
اثر انداز ہونے پر انکا کہنا تھا کہ معاہدے میں جوہری ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے تمام ایٹمی مواد کا احاطہ کر کے اسے کسی کمی سے پاک ہونا چاہئیے۔”معاہدے سے نہ صرف علاقائی اور عالمی سٹریٹیجک استحکام کو فروغ دیا جائے بلکہ اس سے تمام ریاستوں کی جانب سے پر امن مقاصد کیلئے جوہری طاقت کے استعمال کے بنیادی حق کو بھی متاثر نہیں ہونا چاہئیے۔