عمومی تعریف کے مطابق اسلامی بینکاری ایک ایسا نظام ہے، جس میں بینک سود کا لین دین نہیں کرتے۔
اسلامی بینکاری کے حوالے سے لا تعدادمواد چھپ رہا ہے، جن میں اسلامی بینکاری کے مختلف پہلوؤں کے بارے میںدانشوروں کے خیالات و افکار جگہ پاتے ہیں ۔ پاکستان سمیت دنیا کی بہت سی یونیورسٹیوں نے اپنے ماسٹرزڈگری کے نصاب میں اسلامی بینکاری کو بطور مضمون شامل کر رکھا ہے اور ڈاکٹریٹ کے مقالو ں پر پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی دی ہیں۔
اسلامی بینکاری اور پاکستان
پاکستان میں 2002ء میں اسلامی بینکاری کے آغاز سے لے کر سال2017ء کے اختتام تک اسلامی بینکاری کا عام روایتی بینکاری میں حصہ 11.9% جب کہ اثاثہ جات کی مالیت 12.7% تک پہنچ چکی ہے۔ سال 2017 کے اختتام تک پاکستان میںاسلامی بینکاری کے 21ادارے کام کررہے ہیں۔ ان میں 5مکمل طور پر اسلامی بینک اور 16روایتی کمرشل بینک اسلامی بینکاری کی خدمات فراہم کرنے میں مصروف عمل ہیں۔
بینکاسلامی بینکاری کی خدمات فراہم کرنے والی بینک برانچز کی تعداد 2 ہزار 368 تک پہنچ گئی ہے جبکہ شعبہ کے صارفین اور بینک برانچز میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کی اسلامی بینکاری صنعت2002 سے 2015 کے عرصے میں 50%سی جی اے آر کے تناسب سے وسعت پذیر ہوئی ہے ۔
ستمبر 2017تک پاکستان کے مجموعی بینکاری نظام میں اسلامی بینکوں کے اثاثہ جات بڑھ کر 11.9%ہوچکے ہیں۔ مالیت کے حساب سے یہ 2,083ارب روپے کی صنعت بن چکی ہے۔ مجموعی ڈیپازٹس میں اسلامی بینکوں کا حصہ 13.7%فی صد ہے، جب کہ ان ڈیپازٹس کی مالیت 1,729ارب روپے ہوگئی ہے۔پاکستان کےمرکزی بینک کے منصوبے کے تحت 2018کے اختتام تک، اسلامی بینکوں کے پاس بینکنگ سیکٹر کے 15% اثاثے ہوں گے ۔
اسلامی بینکاری کا فریم ورک
پاکستان میں اسلامی اور روایتی بینکوں کے نظام کوبینکنگ کمپنیز آرڈیننس ( بی سی او) 1962 کے تحت چلایا جاتا ہے۔2002میں بی او سی میں ترمیم کی گئی تا کہ بینکاری کاروبار کو شریعت کے مطابق ڈھالا جا سکے ۔ا سٹیٹ بینک آف پاکستان کاریگولیٹری فریم ورک اسلامی بینکوں سمیت تمام بینکوں پر لاگو ہے۔ اسٹیٹ بینک کی بینکوں کو واضح ہدایت ہے کہ مخصوص اسلامی بینکاری شاخوں میں فنڈ، سسٹم اور کنٹرول کو روایتی بینکاری سے مکمل طوپر علیحدہ رکھا جائے۔
اسلامی بینکاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ چیئرٹی اکائونٹ ، پول مینجمنٹ پریکٹس اور شریعہ بورڈ کے ارکان کی اجرت ظاہر کریں۔ روایتی بینک جو اسلامی بینکوں کی پراڈکٹس پیش کرتے ہیں، ان کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ اسلامی بینکوں کے آپریشنزکو ظاہر کریں۔
اسٹیٹ بینک تما م بینکوں بشمول اسلامی بینکوں کا سہ ماہی بنیادوں پر سخت ٹیسٹ کرتا ہے۔
بینکوں کے مسائل حل کرنے کے لیے، ادارہ جاتی فریم ورک پر غور ہو رہا ہے۔1962کا بینکنگ آرڈیننس اس کے لیے عموی اور قانونی فریم ورک فراہم کر تا ہے ، جو روایتی اور اسلامی بینکوں پر ایک ساتھ لاگو ہیں۔ ا سٹیٹ بینک نے سہولت کی خاطر اسلامی بینکاری ڈیپارٹ منٹ کی شکل میں ادارہ جاتی فریم ورک دے دیا ہے ۔
اسلامی اور روایتی کمرشل بینکاری میں فرق
اسلامی اور کمرشل بینکاری کے ظاہری طریقہ کار میں یکسانیت کی وجہ سے عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں نظام ایک جیسے ہیں، صرف نام بدلنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ایسا نہیں ہے، ان دونوں نظاموں میں واضح فرق ہے۔ آپ نے کبھی یہ سوچا ہے اگر ایک مسلمان ایک مرغی کو اسلامی طریقے سے ذبح کرے اورایک غیر مسلم اس کو ویسے ہی مار دے اور دونوں گوشت کو بھون لیا جائے یا ہانڈی میں پکائی جائے تو کیا شکل اور ذائقےسے یہ پتہ لگاناممکن ہے کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام؟ ہر گز نہیں، بلکہ اس مخصوص طریقہ کار ، الفاظ اور اصولوں کی پاسداری کی وجہ سے اس کو حلال قرار دیا جائے گا اوراس کی عدم موجودگی میں اس کو حرام قراردیا جائے گا۔
کمرشل بینکوں میں رائج منافع حاصل کرنے کا نظام سودی ہے۔ وہاں قرض کا لین دین سودی بنیادوں پر ہے، چنانچہ بینک اپنے صارفین کو سود کے عوض قرضہ دیتا ہے۔
اس کے برعکس، اسلامی بینکوں میں خرید و فروخت ، مضاربت، شراکت وغیرہ کی سرمایہ کاری کیلیے جائز صورتوں کو اپنایا جاتا ہے، اسی طرح ان بینکوں میں رقوم کی منتقلی پر فیس وصول کی جاتی ہے، اور اسی طرح غیر ملکی زرِ مبادلہ کے لین دین سے بھی منافع حاصل کرتے ہیں۔
اگر کوئی صارف اپنی رقم سے منافع کمانا چاہے اور اپنی رقوم سودی بچت بینک میں جمع کروا دے، تو بینک اس کے لیے منافع مقرر کر دیتا ہے، ساتھ میں رأس المال کے محفوظ رہنے کی ضمانت بھی دیتا ہے۔ یہ صورت حقیقت میں سودی قرض ہے، اس صورت میں صارف بینک کو قرضہ فراہم کرتا ہے اور بینک کو فائدہ اس طرح ہوتا ہے کہ بینک جمع شدہ رقوم کو دیگر صارفین کو منافع کے عوض بطور قرضہ فراہم کرتا ہے ، اس طرح سودی بینک قرضہ لیتا بھی ہے اور دیتا بھی ہے، لیکن لینے دینے میں جو شرح منافع میں فرق پایا جاتا ہے، اس سے بینک کو فائدہ ہوتا ہے۔
اسلامی بینک میں سرمایہ کاری کا ایک طریقہ کار یہ ہے کہ اسلامی بینک، صارف سے رقم کسی ایسے کام میں مضاربت کے لیے لیتا ہے جو شرعی طور پر جائز ہو۔ کسی رہائشی منصوبے یا کسی اور جائز کام کے لیے لے لیتا ہے، جس میں شرط یہ ہوتی ہے کہ بینک حاصل ہونے والے نفع میں سے معین فیصد صارف کو دےگا، جبکہ بینک کو بھی مضاربت میں محنت کے عوض معین فیصد میں نفع ملتا ہے۔ اس صورت میں کسی بھی منصوبے کی کامیابی کی صورت میں حاصل ہونے والے نفع سے بینک کو فائدہ ہوتا ہے۔
مضاربت میں نفع یا نقصان دونوں چیزوں کا احتمال اور خطرہ قائم رہتا ہے، جس کی وجہ سے منافع کو یقینی بنانے کیلیے کسی ایسے منصوبے پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے، جس میں نفع کے امکانات زیادہ روشن ہوں اور پھر اسے کامیاب بنانے کیلیے محنت بھی کی جاتی ہے۔
عالمی منظرنامہ اور پاکستان
دنیا کے 44ملکوں میں اسلامک فائنانس کے قواعد و ضوابط موجود ہیں، جب کہ 12ملکوں میں باقاعدہ مرکزی شریعہ بورڈ بھی قائم ہیں، جہاں 1,075اسلامی اسکالرز اس صنعت کی سرپرستی اور مانیٹرنگ کررہے ہیں۔ملائیشیا، بحرین اور متحدہ عرب امارات، اسلامی مالیاتی نظام کے حوالے سے بالترتیب دنیا کے تین بڑے ممالک ہیں۔پاکستان کا پانچواں نمبر ہے۔