پاناما لیکس تحقیقات :سپریم کورٹ نے وزیر اعظم ، عمران خان سمیت تمام فریقین کو جواب داخل کرنے کی ہدایت کر دی ، سماعت جمعرات تک ملتوی

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک ) سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس پر وزیر اعظم نوازشریف اور عمران خان سمیت تمام فریقین کو 2 روز میں جواب داخل کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت جمعرات تک ملتوی کردی ۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ نے پاناما لیکس پر تحریک انصاف ، عوامی مسلم لیگ ، جماعت اسلامی سمیت دیگر درخواستوں کی سماعت کی اور وزیرا عظم نوازشریف ، عمران خان ، مریم نوا ز ، حسن نواز ، حسین نواز سمیت دیگر تمام فریقین کو جمعرات تک جواب داخل کرنے کا حکم سنا دیا جس کے بعد مزید سماعت جمعرات تک ملتوی کر دی گئی ہے ۔ عمران خان کو بھی انکی آف شور کمپنی کے حوالے سے جواب داخل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔

کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ نے کی ۔ سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے وکلاءاور رہنما ، شیخ رشید ، جماعت اسلامی کے وکلاءاور حکومتی وکلاءعدالت میں پیش ہوئے ۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کیلئے فریقین کو دو گھنٹے کا وقت دیا جس کے بعد حکومتی لیگل ٹیم نواز شریف سے مشاورت کیلئے وزیر اعظم ہاﺅس پہنچی جبکہ عمران خان کی زیر صدارت بنی گالا میں بھی اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاناما لیکس پر متحدہ اپوزیشن کے ٹی او آرز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنایا جا ئے جبکہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ وہ جوڈیشل کمیشن کے حق میں نہیں مگر لارجر بینچ پر مکمل اعتماد ہے ۔

دوسری جانب وقفے کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو وزیر اعظم کے وکیل سلمان بٹ نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم نے کمیشن کو تسلیم کر لیا ہے اور الزامات ثابت ہوئے تو وزیرا عظم قانونی نتائج تسلیم کریں گے ، وزیر اعظم لندن جائیدادوں پر کمیشن کی تجویز سے متفق ہیں تاہم الزامات میں جہانگیر ترین اور عمران خان کی بہن کے نام بھی ہیں ۔
پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کمیشن جائیدادوں اور گوشواروں تک محدود کر رہی ہے تاہم ہم تمام معاملات کی تحقیقات اور تفتیش چاہتے ہیں جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمیشن کے پاس تمام معاملات کی تفتیش کا مینڈیٹ ہو گا ۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ ٹی اوآر پر اتفاق نہ ہوا تو خود ٹی اوآر بنائیں گے ،ٹی او آر پر الجھ جائیں گے توسرف فوٹو سیشن ہوں گے اس لیے کیس کو زیادہ طول نہیں دیں گے کیونکہ پورے ملک میں بدامنی ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ لو گ 8ماہ سے پش اپس لگا رہے ہیں ۔
جسٹس کھوسہ نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ عدالت معاملہ لٹکائے گی نہیں حل کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے ۔؎’’سیاست جاری رکھیں پاناما لیکس اب عدالت حل کرے گی ‘‘اور ایک دن بھی ضائع نہیں کریں گے ، اب سب کو سخت موقف پر نظر ثانی کرنی چاہئیے ۔

اٹارنی جنرل نے عدالت میں موقف اپنایا کہ جوڈیشل کمیشن بنایا جانا چاہئیے کیونکہ وزیر اعظم بھی کمیشن کیلئے خط لکھ چکے ہیں جس پرعدالت کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن بنا تو تحقیقاتی اداروں سے مدد لیں گے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے تین آپشن دیے جا سکتے ہیں ، پہلا آپشن تو یہ ہے کہ ہم خود بینک کھاتوں کا جائزہ لیں جبکہ دوسرے آپشن کے طور پر تحقیقاتی اداروں کو تحقیقات کا کہیں گے۔ عدالت کا مزید کہنا تھا کہ تیسرا آپشن یہ بھی دیا جا سکتا ہے کہ درخواستگزار خود دستاویز اور ثبوت پیش کرے۔
وقفے سے قبل چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے استفسار کیا کہ فریقین بتائیں عدالتی کمیشن کی فائنڈنگ من و عن مانیں گے اور اس حوالے سے تحریری طو ر پر لکھ کر دیں۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے کہ ممکن ہے پاناما لیکس کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سنیں ۔
پاناما لیکس کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاناما لیکس کیس پر جوڈیشل کمیشن کی ضرورت نہیں ، پاناما معاملے کا فیصلہ اب عدالت خودکرے گی ۔”پاناما لیکس پر کمیشن نہیں بنائیں گے کیس کا فیصلہ خود کریں گے “۔

سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ جوڈیشل کمیشن کی ضرورت نہیں ، سب پاناما والوں پر قانون کا اطلاق ہونا چاہئیے ۔ وزیرا عظم کے انکم ٹیکس کی تفصیلات عدالت کو دے دی گئی ہیں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ  نیب نے روز مرہ کارروائی سے انحراف کیوں کیا ؟وزیرا عظم اور انکے خاندان پر بیرون ملک اثاثے بنانے کا الزام ہے مگر کوئی ادارہ کچھ نہیں کرنا چاہتا ، پاناما معاملے کا فیصلہ اب عدالت کریگی ۔سپریم کورٹ خود معاملہ سن رہی ہے ۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اب کچھ نہ کرنے والوں سے بھی نمٹ لیں گے ۔
جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ نیب نے روز مرہ کارروائی سے انحراف کیوں کیا ؟وزیرا عظم اور انکے خاندان پر بیرون ملک اثاثے بنانے کا الزام ہے مگر کوئی ادارہ کچھ نہیں کرنا چاہتا ، پاناما معاملے کا فیصلہ اب عدالت کریگی ۔سپریم کورٹ خود معاملہ سن رہی ہے ۔
دوران سماعت طارق اسد ایڈوکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکمران مسلط ہیں جس پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے کہ حکمرانوں کو ہم نے ہی منتخب کیا تاہم آپ پاناما لیکس پر ہی فوکس کریں ۔ پورے ملک کی نظریں پاناما لیکس کیس کے فیصلے پر ہیں ممکن ہے کیس کو روزانہ کی بنیاد پر سنیں ۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیس کی تاریخ پر نظر ثانی کی سرخی کیسے بنی ؟ میڈیا کوذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہئیے ، 20اکتوبر کو کیس دو ہفتے میں لگانے کا حکم دیا ۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اٹارنی جنرل اور دیگر فریقین نے جواب دیا جس پر جسٹس عظمت سعید نے جواب دیا کہ نیب کے سوا کسی نے جواب جمع نہیں کرایا جس پر عدالت نے وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل سلما ن بٹ کو کہا کہ آپکو جواب جمع کرانا چاہئیے تھا ،ہم سمجھیں گے آپکو جواب دینے میں دلچسپی نہیں تاہم تمام فریقین کو مکمل موقع دیں گے ۔عدالتی ریمارکس کے بعد وزیراعظم کے وکیل نے جواب کیلئے مہلت مانگ لی اور کہا کہ میری خدمات کل ہی لی گئی ہیں ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جواب نہ آیا تو سمجھیں گے آپکے پاس جواب نہیں ہے کیونکہ جواب جمع کرانے میں حکومت تاخیری خربے استعمال کر رہی ہے ، آپ کے جواب کا انتظار نہیں کریں گے ۔ دو ہفتے سے اس کیس میں سنسنی پھیلائی جا رہی ہے۔
جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ کیا زائد اثاثے بنانا جرم نہیں؟ مقدمے میں تاخیری خربے برتے گئے ۔ نیب پراسیکیوٹرنے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا ہے کہ پانامالیکس سے متعلق ٹھوس شواہد موجود ہیں ۔
عمران خان کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اپریل میں پاناما لیکس سے متعلق معاملہ سامنے آیا جس کے بعد وزیر اعظم نے کہا کہ 2005ے میں جدہ سٹیل مل بیچ کر لند ن میں فلیٹ خریدے گئے جبکہ نواز شریف کے بچوں مریم حسن اور حسین کے نام آف شور کمپنیوں ہیں ۔خفیہ دستاویز کی لیکس اور معاملات کی صداقت سے کسی کو انکار نہیں۔وزیر اعظم نے کہا کوئی پیسہ باہر نہیں بھیجا تاہم لندن کی پارک لین میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے جائیدادیں خریدی گئیں ۔
جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا آپ 2005ءسے پہلے مریم نواز کے آف شور کمپنیوں سے روابط ثابت کر سکتے ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم صرف بنیادی شواہد ہی فراہم کر سکتے ہیں ۔
عدالت نے خامد خان سے مزید کہا کہ پاناما کی دستاویز کس لا فرم کے پاس تھیں ؟ جس پر خامد خان نے جواب دیا کہ موزیک نامی لا فرم پانامامیں قائم ہے جہاں سے شواہد لیک ہوئے۔عدالت نے مزید پوچھا کہ نیلسن اورنیسکول کمپنیاں کب بنائی گئیں جس پر انکا جواب تھا کہ نیلسن اور نیسکول 1993ءاور 1996ءتک بنائی گئیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ کیا کسی نے پاناما لیکس پر اعتراض کیا ؟ جس پر خامد خان نے عدالت کو بتایا کہ کسی نے اعتراض نہیں کیا۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیے کہ نیب نے لکھ دیا ہے کہ پاناما لیکس تحقیقات کا اختیار نہیں ہے تاہم پیسہ باہر جائے تو معاملہ نیب کے اختیار میں آتا ہے ۔سپریم کورٹ معاملہ خودسن رہی ہے اور درخواست قابل سماعت ہونے کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے ۔
عوامی مسلم لیگ کی جانب سے دائر درخواست پر دلائل دینے کیلے شیخ رشید خود سپریم کورٹ میں موجود تھے جبکہ تحریک انصاف کے وکلاءکے علاوہ شیریں مزاری بھی کمرہ عدالت میں تھے۔ دوسری جانب مسلم لیگ نواز کے طلال چودھری اور عابد شیر علی ِ، خواجہ آصف ، خواجہ سعد رفیق اور طارق فضل چودھری بھی موجود تھے ۔

About BLI News 3253 Articles
Multilingual news provider for print & Electronic Media. Interviews, Exclusive Stories, Analysis, Features, Press Conferences Photo & Video Coverage and Economic Reviews, Pakistan and Worldwide. Opinions, Documentaries & broadcast.