ٹرمپ کی فتح سے پریشان کون، خوش کون؟

امریکہ میں رپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو ملک کا 45 صدر منتخب کر لیا گیا ہے۔ انتخابی نتائج بہت سے لوگوں کے لیے مسرت کا باعث بنے ہیں جب کہ کروڑوں افراد کو شدید مایوسی بھی ہوئی ہے۔

لہذا دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کے دورۂ اقتدار میں کن لوگوں کو فائدہ اور کن کو نقصان ہو گا۔

ذیل میں اس ارب پتی بزنس مین کی انتخابی تقریروں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے نائب صدر کے امیدوار مائک پینس جو امریکی ریاست انڈیانا کے گورنر رہے ہیں اور مذہبی رجحنات رکھتے ہیں ان کے خیالات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔

 
ٹرمپ اور ہلیری کے درمیان انتخابی مہم بہت تلخ رہی

خواتین:

تمام سابق امریکی صدارتی انتخابات کے مقابلے میں ان انتخابات میں صنف کا عنصر بہت اہم رہا کیونکہ ووٹروں کو اس بات کا فیصلہ کرنا تھا کہ انھیں ایک خاتون کو صدر منتخب کرنا ہے یا نہیں۔

انتخابی مہم کے آخری ہفتے میں ڈیموکریٹ امیدوار ہلیری کلنٹن نے ڈونلڈ ٹرمپ کے خواتین کے ساتھ رویے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی اور انہیں ایک بدقماش شخص قرار دیا جس کی خواتین کے ساتھ بدتمیزی، بدسلوکی، بے عزتی اور دست درازی کی 30 سالہ تاریخ ہے۔

لیکن انتخابی نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین ووٹرز میں ہلیری کلنٹن کے ان الزامات کو زیادہ پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی۔ رائے عامہ کے جائزوں سے معلوم ہوا کہ 42 فیصد خواتین نے ٹرمپ کے حق میں ووٹ دیا۔

ان اعداد و شمار کی مزید تفصیل کچھ یوں ہے کہ 53 فیصد سفید فام خواتین نے ٹرمپ کو ووٹ دیا جب کہ چار فیصد سیاہ فام خواتین ٹرمپ پینس جوڑی کے حق میں تھیں۔ ہسپانوی ووٹروں میں جن کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ناراض کرنے کی پوری کوشش کی تھی ان میں سے 26 فیصد خواتین نے انھیں ووٹ دیا۔

 
ٹرمپ کی صاحبزادی ایونا نے کہا تھا کہ ان کے والد خواتین کے خلاف نہیں ہیں

بی بی سی کی نامہ نگار کیٹی کے نے ڈونلڈ ٹرمپ کے خواتین کے بارے میں چند بیانات کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ٹرمپ نے کہا تھا کہ جو خواتین حمل گرواتی ہیں انھیں سزائیں دی جانی چاہیں، ایک ٹی اینکر سے عامیانہ طعن زنی کرتے ہوئے ان کے مخصوص ایام کے بارے میں بات کی۔ لیکن کچھ خواتین ووٹرز جن میں کچھ گھریلو خواتین بھی شامل تھیں ان کے خیال میں صنفی مساوات کے مخالفانہ جذبات کی عکاسی کرنے والے بیانات اصل میں حوصلہ افزا ہے اور اس سے انھیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کچھ خواتین کے خیال میں یہ عورتوں کے تاریخی اور روایتی گھر بار کی دیکھ بحال اور پرورش کے کردار کا اعتراف ہے۔

اس بات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہ خواتین کیوں ٹرمپ کو ووٹ دیں گی ایک ویب سائٹ واکس نے کہا کہ وہ خواتین جو لیبر مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کر پاتیں ان میں ایسی اقدار اور پالیسیوں کی حمایت کا امکان زیادہ ہے جن میں گھر کے اندر اور باہر کام کی روایتی تقسیم کو تسلیم کیا جائے۔

بہت سے لوگ سفید فام ورکنگ کلاس لوگوں کے لیے خوشحالی اور روزگار کے مواقعے بحال کرنے اور ایسے صنعت کاروں کو جو اپنی مصنوعات بیرون ملک تیار کرواتے ہیں انھیں سزائیں دینے کے وعدوں میں آ گئے۔

 
n ٹرمپ کی انتخابی فتح نے ہلیری کے حمایوں کے لیے بہت سے سوال کھڑے کر دیے ہیں

حاملہ خواتین کو بھی ٹرمپ کے دورِ اقتدار میں کچھ فائدہ ہو گا۔ نو منتخب صدر کی بیٹی ایونکا نے ایک منصوبہ بنایا ہے جس میں ایسی حاملہ خواتین کے لیے چھ ہفتوں کی تنـخواہ سمیت چھٹی دینے کی تجویز شامل ہے جن کے آجر انھیں یہ سہولت مہیا نہیں کرتے۔

سابق فوجی خواتین کے لیے ٹرمپ نے وعدہ کیا ہے کہ ان کے نفسیاتی اور ذہنی علاج کے لیے مزید رقم مہیا کی جائے گی اور ایسے ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا جو خواتین کی صحت کے ماہر ہوں۔

خواتین سماجی کارکنان خاص طور پر اس تشویش میں مبتلا ہیں کہ ٹرمپ امریکی میں اسقاط حمل کے قوانیں میں کیا رد و بدل کریں گے۔ اس وقت امریکہ کی تمام پچاس ریاستوں میں سنہ 1973 کے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت اسقاط حمل پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن اگر ڈونلڈ ٹرمپ کسی قدامت پسند جج کو سپریم کورٹ میں جج کی ایک خالی آسامی پر تعینات کر دیتے ہیں تو سپریم کورٹ میں قدامت پسندوں کی اکثریت ہو جائے گی اور امکان ہے کہ سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کو تبدیل کر دیا جائے۔

ڈونلڈ ٹرمپ اسقاط حمل پر اپنے موقف کو تبدیل کرتے رہے ہیں۔ سنہ 1999 میں انھوں نے کہا تھا کہ:’ہر شخص کو اپنا فیصلہ کرنے کا حق ہے۔ میں اسقاط حمل کے تصور سے نفرت کرتا ہوں۔ میں پورے خیال سے نفرت کرتا ہوں۔ جب لوگ اس بارے میں بحث کرتے ہیں تو مجھے سخت کوفت ہوتی ہے لیکن میں ذاتی چوائس پر یقین رکھتا ہوں۔’

مارچ سنہ 2016 میں انھوں نے وضاحت کی کہ ‘رونلڈ ریگن کی طرح میرا موقف بھی تبدیل ہو گیا ہے میں چند استثنی کے علاوہ زندگی کے حق میں ہوں۔’

جب انھوں نے حمل گرانے والی خواتین کو سزا دینے کا دھمکی آمیز بیان دیا تو بہت سے لوگوں کو اعتراض ہوا لیکن بعد میں انھوں نے کہا کہ جو اسقاط حمل کرتے ہیں انھیں سزا دینی چاہیے۔

نو منتخب نائب صدر مائک پینس نے بھی اسقاط حمل پر اپنی مخالفت کو چھپا کر نہیں رکھا۔ انھوں نے جولائی میں کہا تھا کہ ‘میں زندگی کے حق میں ہوں اور مجھے اس پر کوئی معذرت خوانہ رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ اس بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو تاریخ کی راکھ بنا دینا چاہیے جس کا یہ مستحق ہے۔‘

ٹرمپ پر دست دارزی کے الزامات عائد کرنے والے بھی آج بہت خوش نہیں ہوں گے۔ ان کی مہم کے دوران اس طرح کے کئی الزامات سامنے آئے اور کئی خواتین نے دعویٰ کیا کہ ٹرمپ نے ان سے زبردستی بوس و کنار کیا یا ان کے جسم کے نازک حصوں سے چھیڑ چھاڑ کی۔ بہت سے رپبلکن رہنماؤں کو اس وقت شدید تشویش پیدا ہو گئی تھی جب ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں انھوں نے ایک ٹی وی اینکر بلی بش سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘میں نے اس سے بوس و کنار شروع کر دی۔ یہ ایک مقناطیس کی طرح تھا۔ جب آپ کوئی اہم شخصیت ہوتے ہیں تو پھر انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔’

لیکن ان تمام الزامات اور شواہد کے باوجود انھیں الیکشن میں کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ الزامات لگانے والوں کو اب یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا جتینے کے بعد ٹرمپ ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کرتے ہیں یا نہیں۔

امریکہ اور امریکہ کےباہر مسلمان:

 

امریکی مسلمانوں کے لیے سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ میں قائم تمام مساجد کی نگرانی ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا تھا کہ انھیں اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ اس کا ان کی مہم پر کیا اثر پڑے گا لیکن وہ چاہتے ہیں کہ تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے انسداد دہشت گردی کی اپنی کوششوں میں تمام مسلمانوں کا پیچھا کریں۔

ٹرمپ کے اس بیان کو بھی وسیع پیمانے پر شائع کیا گیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ تمام امریکی مسلمانوں کے پورے کوائف محفوظ کیے جائیں لیکن بعد میں ریپبلکن پارٹی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ نے یہ بیان ایک صحافی کے سوال کے جواب میں دیا تھا جسے وہ پوری طرح سمجھ نہیں سکے تھے۔

امریکی نشریاتی ادارے این بی سی کے ایک صحافی نے جب ٹرمپ سے پوچھا کہ مسلمانوں کی رجسٹری اور نازی جرمنی میں یہودیوں کی رجسٹری میں کیا فرق ہے تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ ‘آپ مجھے بتائیں۔’

اس انتخابی نتیجے میں اسلامی کمینوٹی کے لیے کسی سود مند چیز کی نشاندہی کرنا خاصہ مشکل کام ہے۔

کچھ اسلامی مصنفیں نے مستقل کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ مسلمان وہ واحد اقلیت ہیں جنہیں ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران لبھانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

نقادوں نے نو منتخب بزنس مین صدر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اسلام مخالف منفی جذبات کو ابھار کر ایسے ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جو امریکی سرزمین پر دہشت گردی کے حملوں کے خوف میں مبتلا ہیں۔ ٹرمپ کے مسلمان امریکی فوجی کپتان ہمایوں خان کے والدین کے ساتھ تنازع میں نو منتخب صدر نے یہ دعوی کیا تھا کہ ہمایوں کی والدہ غزالہ خان اور ان کے شوہر کو ڈیموکریٹک پارٹی کے کنونشن میں بولنے کا موقع نہیں دیا گیا تھا جسے انھوں نے جھٹلا دیا تھا۔

 
ٹرمپ نے امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر مکمل طور پر پابندی لگانے کی بات کی تھی

کیلیفورنیا کے سان برناڈینو میں چودہ افراد کے قتل کے واقعے کے بعد ٹرمپ نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں انھوں نے مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر اس وقت تک مکمل پابندی عائد کرنے کی بات کی تھی جب تک صورت حال کا صیح طور پر اندازہ نہیں لگا لیا جاتا۔

اس بیان پر عالمی رد عمل سامنے آیا تھا اور اس کی بھرپور مذمت کی گئی تھی اور ایک درخواست پر دستحظ کی مہم بھی برطانیہ میں شروع کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ کے برطانیہ میں داخلے پر بھی پابندی عائد کی جانی چاہیے۔ اس درخواست پر لاکھوں افراد نے دستخط کیے تھے۔

ایک مذمت مائک پینس کی طرف سے بھی کی گئی تھی جس میں مسلمانوں پر پابندی کی تجویز کو ‘غیر آئینی اور جارحانہ’ قرار دیا گیا تھا۔

ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ نے اب یہ خیال ترک کر دیا ہے۔

امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے اکتوبر میں ایک انٹرویو کے دوران جب مائک پینس سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا انھوں نے مسلمانوں پر پابندی کا خیال ترک کر دیا ہے تو انھوں نے کہا کہ اب ٹرمپ کا بھی یہ ہی موقف ہے۔

ہسپانوی باشندے

داستانوی ‘میکسکن وال’ یا میکسیکو کی سرحد کے ساتھ دیوار کی تعمیر ٹرمپ کی انتخابی مہم کا سب سے مشہور وعدہ رہا ہے۔

نو منتخب صدر نے ایک کروڑ دس لاکھ غیر قانونی تارکیں وطن کو امریکہ بدر کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ غیر قانونی طور پر میکسیکو سے امریکہ داخل ہونے والوں کو کنریکیٹ کی قوت سے روکیں گے۔

میکسیکو کے صدر ایرک پینا نیتو نے ٹرمپ کے بیان کو ایک دھمکی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ آٹھ ارب ڈالر سے وہ دو ہزار میل لمبی دیوار کے لیے پیسہ فراہم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔

سرحد پر رہنے والے کچھ لاطینی افراد کا کہنا ہے کہ اگر اس منصوبے پر عملدرآمد ہوتا ہے تو ان کے لیے روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہوں گے۔

ٹرمپ کی حمایت کرنے والے 29 فیصد لاطینی ووٹروں میں شامل اے جے ڈیلگاڈو نے واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ لاطینی آبادی کا مسئلہ امیگریشن نہیں بلکہ روزگار اور معیشت ہے۔

اگر ٹرمپ محنت کشوں کے لیے روزگار کے واپس امریکہ منتقل کرنے کے اپنے وعدے پر پورے اترتے ہیں تو ان کے حمایتیوں کو اطمینان کا احساس ہو گا۔

ایک کروڑ دس لاکھ غیر قانونی غیر ملکی جو امریکہ میں مقیم ہیں ان میں سے خاصی بڑی تعداد ہسپانوی باشندوں کی ہے اور ان کے لیے ٹرمپ کا جیتنا پریشان کن بات ہے۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ امریکہ میں امیگریشن کے عملے کو تین گنا کر دیں گے اور ہر سال ملک بدر کیے جانے والوں کی تعداد کو بڑھا کر بارہ لاکھ تک لے جائیں گے۔

میکسیکو سے تعلق رکھنے والے سیاح، ورکر، طالبہ اور تاجروں سب کو ان انتخابی نتائج سے نقصان ہونے والا ہے۔ ان میں دس لاکھ لوگ روزانہ امریکہ اور میکسیکو کے درمیان سفر کرتے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ میکسیکو کے ساتھ تجارت سے ساٹھ لاکھ لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور یہ معیشت کے لیے بہت سود مند ہے۔

About BLI News 3238 Articles
Multilingual news provider for print & Electronic Media. Interviews, Exclusive Stories, Analysis, Features, Press Conferences Photo & Video Coverage and Economic Reviews, Pakistan and Worldwide. Opinions, Documentaries & broadcast.