وزیراعظم نے بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے کا اعلان کر دیا

اسلام آباد(بی ایل ٰآئی)پاکستان نے ایک مرتبہ پھر بھارت کو امن کا پیغام دیدیا، وزیراعظم عمران خان نے جذبہ خیرسگالی کے تحت بھارتی پائلٹ کو کل رہا کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔انہوں نے پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بہادر شاہ ظفر اور ٹیپو سلطان آئے، بہادر شاہ ظفر نے وقت آنے پر غلامی چنی اور ایسا ہی فیصلہ کرنے کا وقت ٹیپو سلطان پر بھی آیا، اور اس قوم کا ہیرو ٹیپو سلطان ہے۔

تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمینٹ اور اپوزیشن کا شکرگزار ہوں اور خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ ایسے وقت میں جب پاکستان کو بیرونی خطرات لاحق ہیں تو سب اکٹھے ہیں اور پوری قوم ایک ساتھ کھڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 26 جولائی کو جب میں وزیراعظم نہیں بنا تھا، تب بھی میں نے بیان دیا تھا کہ اگر ہندوستان ایک قدم پاکستان کی طرف بڑھائے تو ہم دو قدم ان کی طرف بڑھائیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ برصغیر میں دنیا کی سب سے زیادہ غربت اور بھوک ہے، اور یہ میرا ویژن ہے کہ وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی جہاں بہت کم لوگ امیر ہوں اور غریبوں کا سمندر ہو، چین نے 70 کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا اور اس کیساتھ ہی ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ انہوں نے ہمسائیوں کیساتھ تمام مسائل بہترین طریقے سے ختم کئے۔

وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ 15 سال کے دوران امریکہ جب دہشت گردی کیخلاف جنگ کے نام پر افغانستان میں ایک ٹریلین ڈالر خرچ کر رہا تھا، چین نے اس دوران زبردست انفراسٹرکچر قائم کیا اور دنیا کا سب سے ایڈوانسڈ ریل سسٹم بنایا، میں یہ سمجھتا ہوں کہ برصغیر میں ترقی کیلئے امن کا قیام ضروری ہے اور امن کیلئے ضروری ہے کہ تمام مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔ 26 جولائی کو پیشکش دی اور پھر مودی کو ایک خط بھی لکھا کہ وزرائے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کو اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر ملاقات کرنی چاہئے مگر پھر بھی مثبت جواب نہیں آیا، ہم نے محسوس کیا کہ ہندوستان میں انتخابات کے باعث اچھا جواب نہیں آیا کیونکہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ان کی الیکشن مہم میں شامل نہیں ہیں اور یہ سوچ کر الیکشن کے بعد بات آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد ایک اور موقع ملا تو ہم نے کرتارپور بارڈر کھولنے کا سوچا جو بات چیت کو آگے بڑھانے کی ایک کوشش تھی تاکہ کشیدگی کم ہو مگر بدقسمتی سے اس وقت بھی معاملات آگے نہ بڑھے اور ایک مرتبہ پھر انتخابات کے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے لیکن ہمیں خوف تھا کہ الیکشن سے پہلے کوئی نہ کوئی واقعہ ہو گا جس کو الیکشن کیلئے استعمال کیا جائے گا اور پھر پلومہ واقع ہو گیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں یہ نہیں کہتا کہ پلوامہ واقعے میں بھارت کا اپنا ہاتھ ہے لیکن ابھی آدھا گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ پاکستان پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دی گئیں۔ حملے کا وقت دیکھیں ، اس وقت سعودی ولی عہد کا انتہائی اہم دورہ پاکستان جاری تھا جس میں انہوں نے سرمایہ کاری کرنا تھی اور کون سا ایسا ملک ہے جو ایسے اہم موقع پر خود ہی اپنے معاملات کو سبوتاژ کر لے، اس کے علاوہ ہمیں یہ سمجھ نہیں آئی کہ اس سے ہمیں ملنا کیا تھا، ہم نے فوری طور پر کہا کہ کسی قسم کی قابل کارروائی انٹیلی جنس دیں گے تو ہم کارروائی کریں گے کیونکہ پارلیمینٹ میں بیٹھی تمام جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان پر دستخط کئے ہوئے ہیں کہ ہم پاکستان کی سرزمین کسی صورت استعمال نہیں ہونے دیں گے اور مسلح گروہوں کو بھی نہیں چلنے دیں گے، اس کے علاوہ پاکستان گرے لسٹ میں بھی شامل تھا، لہٰذا ہم نے ثبوت مانگے لیکن بدقسمتی سے ثبوت دینے کے بجائے جنگی جنون بڑھتا گیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں پاکستان کے میڈیا کو خاص طور پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ یہاں میڈیا کا رویہ بہت ذمہ دارانہ تھا، اس کی بہت بڑی وجہ ہے کہ ہمارے میڈیا نے پچھلے 15 سال میں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہونے والے نقصانات خود دیکھے ہیں، ایسے حالات میں کیسی تباہی مچتی ہے اور متاثرین کی کیا حالت ہوتی ہے، سب کچھ دیکھا ہے اس لئے ہمارے میڈیا نے بڑی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا مگر افسوس کیساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہندوستان میں جیسا جنگی جنون تھا، ہمیں شک تھا کہ پاکستان میں کچھ نہ کچھ کیا جائے گا، اس لئے پلوامہ کے بعد اپنے پہلے پیغام میں یہ بھی کہا کہ اگر آپ جارحیت کریں گے تو اس کا جواب دیں گے کیونکہ کوئی بھی خودمختار ملک اس بات کی اجازت نہیں دیتا، آج ہندوستان نے پلوامہ پر ڈوزئیر بھیجا ہے اور دو دن پہلے حملہ کیا تھا جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی بھی ہے اور ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ڈوزئیر پہلے دیدیتے تو کوئی کارروائی بھی ہوتی، لیکن پھر محسوس کیا کہ ہندوستان میں الیکشن کے باعث ان کی مجبوری ہے کہ ایسا ماحول بنایا جائے، ایک طرف پاکستان کوشش کر رہا تھا کہ ہندوستان کیساتھ ہر طرح کا تعاون کریں اور دوسری طرف پاکستان افغانستان کے مسئلے کو حل کرانے کی کوششوں میں مصروف ہے کیونکہ پہلی مرتبہ وہاں مذاکرات سے مسئلہ حل ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے اور پاکستان کی کوششوں سے قطر میں مذاکرات ہوئے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ صبح ساڑھے تین بجے بھارتی حملے کی خبر ملی اور آرمی چیف کے علاوہ ائیرچیف سے بھی بات چیت ہوئی کہ ہم اس کا جواب دیں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ہمیں پوری معلومات نہیں ملی تھیں کہ اس حملے میں کتنا جانی و مالی نقصان ہوا ہے لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم کچھ نہیں کریں گے اور ہمیں یہ بھی تھا کہ عوام بہت مایوس ہوں گے کہ آپ نے کارروائی نہیں کی لیکن اس کے باوجود مکمل معلومات ملنے تک ایک ذمہ دار ریاست کی طرح کوئی کارروائی نہیں کی۔ اگلے دن ہم نے اپنی قابلیت اور اہلیت دکھانے کیلئے جواب دیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی جانی نقصان نہ ہوا اور جب ہمارے طیارے واپس آ رہے تھے تو بھارتی طیاروں نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی خلاف ورزی کی اور پھر مار گرائے گئے۔ موجودہ صورتحال پر میں نے کل شام کو نریندرا مودی کو فون کرنے کی کوشش کی کیونکہ ہم یہ بتانا چاہتے تھے کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا اور اس لئے نہیں کہ ہم گھبرائے ہوئے ہیں بلکہ اس لئے کہ یہ دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں ہے، افواج پاکستان نے پچھلے 10 سے 15 سال کے دوران جو جنگ لڑی ہے، وہ بہترین افواج ہی لڑ سکتی ہیں اور پوری قوم اس پر متفق ہے لیکن جنگ دونوں ممالک اور خطے کے مفاد میں نہیں ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ روز ہم نے دیگر ممالک کے لیڈران سے بھی رابطے کئے اور تمام ممالک کی کوشش ہے کہ یہ معاملہ ختم ہو۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی وجہ مسئلہ کشمیر ہے اور میں ہندوستان کی عوام سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا انہیں یہ سوال نہیں کرنا چاہئے کہ گزشتہ چار سال سے کشمیریوں پر جو ظلم اور تشدد ہو رہا ہے ، کیا ایسا کرنے سے کشمیریوں کو دبا لیں گے؟ ہندوستان کے ایک سیاستدان نے جس طرح کہا کہ آئیڈیا کو جیل میں نہیں ڈالا جا سکتا تو کیا کشمیر میں شروع ہونے والی مہم جو ظلم و ستم کے باعث بڑھتی جا رہی ہے، اسے دبایا جا سکتا ہے؟ 20 سال پہلے جب میں ہندوستان گیا تو مجھے یاد ہے کہ کشمیری رہنماءعلیحدگی نہیں چاہ رہے تھے اور ہندوستان کیساتھ تھے اور اب کشمیر کی صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی کشمیر کا لیڈر حمایت نہیں کر رہا بلکہ عوام کا اتنا دباﺅ ہے کہ وہ آزادی کے علاوہ کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہیں اور اس کی وجہ صرف اور صرف کشمیریوں پر ہونے والا ظلم وستم ہے۔ کیا ان کو یہ نہیں پوچھنا چاہئے کہ کشمیر میں 19 سال کا نوجوان اپنے آپ کو بم بنا کر اڑا دیتا ہے، وہ اور دیگر نوجوان کس انتہاءکو پہنچ گئے ہوں گے کہ موت کا خوف ہی ختم ہو گیا ہے، کیا ظلم و ستم سے یہ سب کچھ تبدیل ہو جائے گا؟ ہندوستان میں بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر گزشتہ کئی سالوں سے ظلم و ستم کر کے کچھ نہیں ہوا تو اب بھی کچھ نہیں ہو گا اور ہندوستان میں اس وقت ایک بحث کی ضرورت ہے۔ اگر اسی طرح چلتا گیا تو وہاں ردعمل آئے گا اور پھر دہشت گردی ہو گی تو کیا انگلیاں پاکستان کی اٹھائی جاتی رہیں گے اور کہا جائے گا کہ پاکستان کارروائی کرے؟

میں ہندوستان میں یہ آوازیں اٹھتی بھی دیکھ رہا ہوں کہ دہشت گردانہ حملے کو اسلامی انتہاءپسندی کہا جا رہا ہے، میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نائین الیون سے پہلے سب سے زیادہ خودکش حملے ہندوﺅں نے کئے تھے اور خودکش حملے مایوسی اورذلت کا شاخسانہ ہوتے ہیں، سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر متفق نہیں ہیں اور جو حکومت کر رہی ہے، کاش ان کے میڈیا نے بھی وہ دیکھا ہوتا تو ہمارے میڈیا نے دیکھا ہے کیونکہ اگر وہ یہ سب کچھ دیکھ لیتے تو آج اس طرح کا جنگی جنون نہ پھیلاتے، جنگ کوئی نہیں جیتتا، اور ہمارے پاس جو ہتھیار ہیں، کسی کو جنگ کا سوچنا بھی نہیں چاہئے، مجھے خوف آتا ہے کہ یہاں غلط اندازے نہ لگا لئے جائیں، کئی ممالک غلط اندازوں اور اقدامات کی وجہ سے تباہ ہوئے، افغانستان میں بھی یہی کچھ ہوا اور سوچا گیا کہ چند مہینے میں جنگ ختم ہو جائے گی لیکن آج 17 سال کے بعد دنیا کی سب سے بھاری فوج بھی مذاکرات پر آ گئی ہے، لہٰذا جنگ مسائل کا حل نہیں، اگر ہندوستان اب کوئی ایکشن لیتا ہے تو ہمیں مجبوری میں ایکشن لینا پڑے گا اور پھر بات کدھر جائے گی؟

وزیراعظم نے واضح کیا کہ پاکستان امن چاہتا ہے، پاکستان کا مفاد ہے کہ خطے میں امن ہو تاکہ لوگوں کو غربت سے نکالیں کیونکہ امن کے بغیر ایسا ممکن نہیں، امن ہو تو سرمایہ کاری آتی ہے اور دولت آتی ہے، کشیدگی کا فائدہ دونوں ممالک کو ہی نہیں ہو گا، میں نے کل بھی مودی سے بات کرنے کی کوشش کی اور دیگر لوگوں سے بھی بات کر رہے ہیں لیکن اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے، پاکستان وہ ملک ہے جس کی تاریخ میں دو بادشاہ تھے، ایک بہادر شاہ ظفر تھا اور دوسرا ٹیپو سلطان، بہادر شاہ ظفر کو ایک وقت میں غلامی اور موت میں سے کسی ایک کے انتخاب کا فیصلہ کرنا پڑا تو اس نے غلامی قبول کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے باقی ساری زندگی غلامی میں گزار دی، ٹیپو سلطان پر بھی ایسا فیصلہ کرنے کا وقت آگیا، اور اس ملک کا ہیرو ٹیپو سلطان ہے، اس قوم کو زور لگائیں گے تو اسے بھی فیصلہ کرنا پڑے گا اور غیرت مند قوم غلامی کو ٹھکراتے ہوئے آزادی کیلئے لڑے گی، میں اس لئے آج ہندوستان کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ کو بھی اس انتہاءکی طرف مت دکھیلیں، مجھے پتہ ہے کہ پاکستان کی فوج کتنی تیار ہے اور کہاں کھڑی ہے اور کس حد تک جواب دے سکتی ہے، اس لئے میں کہتا ہوں کہ معاملے کو آگے مت لے کر جائیں کیونکہ آپ نے کچھ کیا تو پاکستان جواب دینے پر مجبور ہو گا، اور دونوں ملکوں کے پاس جو ہتھیار ہیں، دونوں کو ایسا سوچنا بھی نہیں چاہئے۔ میں یہ بھی امید رکھتا ہوں کہ بین الاقوامی برادری بھی اس میں اپنا کردار ادا کرے گی۔

About BLI News 3238 Articles
Multilingual news provider for print & Electronic Media. Interviews, Exclusive Stories, Analysis, Features, Press Conferences Photo & Video Coverage and Economic Reviews, Pakistan and Worldwide. Opinions, Documentaries & broadcast.