کسی پہاڑ پر ایک دیو رہتا تھا ۔ وہ بہت نیک اور رحم دل تھا۔ غریبوں کی مدد کرتا تھا۔ وہ جب شہر کی طرف آتا تو کوئی نہ کوئی بھیس بدل لیتا تھا۔ ایک دن وہ شکاری کے بھیس میں گھوڑے پر سوار جنگل میں سے گزر رہا تھا کہ ایک آدمی کو دیکھا جو لکڑیاں جمع کررہا تھا۔ دیو نے پوچھا ’’بھائی، ان لکڑیوں کا کیا کرو گے؟‘‘
’’آدھی تو بیچ دوں گا اور گھر والوں کے لئے کھانے کا سامان لائوں گا اور آدھی جلانے کے لئے گھر لے جائوں گا۔‘‘ آدمی نے جواب دیا۔
دیو نے اپنے گھوڑے سے اترتے ہوئے کہا ’’تم یہ گھوڑا لے لو اور اسے سوداگر کے ہاتھ بیچ آئو لیکن اس سے پچاس سونے کے سکوں سے ایک سکہ کم نہ لینا۔ وہ تمہیں کم سکےدینے کی کوشش کرے گا۔ وہ بہت کمینہ اور لالچی ہے۔ اس کی باتوں میں نہ آنا۔‘‘
اس آدمی نے دیو کا شکریہ ادا کیا اور گھوڑے پر چڑھ کر سوداگر کے پاس پہنچا۔ سوداگر کو گھوڑا بہت پسند آیا لیکن اس نے اس آدمی کو گھوڑے کی قیمت کم کرنے کے لئے کہا۔ لیکن اس نے انکار کر دیا۔ سوداگر نے پچاس سونے کے سکے دے کر گھوڑا لے لیا۔ پچاس سکوں میں بھی یہ گھوڑا سستا تھا۔
لالچی سوداگر نے سوچا کہ یہ گھوڑا کسی کسان کے ہاتھ دو گنی قیمت پر فروخت کرنا چاہیے۔ اس نے گھوڑے کو اپنے اصطبل میں باندھا اور گاہک کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ جلد ہی اسے ایک بھولا بھالا کسان مل گیا۔ سوداگر نے اسے سو سونے کے سکوں میں گھوڑا خریدنے پر راضی کرلیا۔ لیکن جب وہ کسان کو گھوڑا دکھانے کے لئے اصطبل میں لایا تو گھوڑا غائب تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ دیو کی شرارت ہے۔ اسے دیو پر بہت غصہ آیا اور اس سے بدلہ لینے کی سوچنے لگا۔
ادھر دیو نے سودا گر کو اور تنگ کرنے کا طریقہ سوچا۔ وہ اب ایک مزدور کے بھیس میں اس کے گھر آیا اور کہنے لگا ’’میں ایک غریب آدمی ہوں، میرے پاس روٹی کھانے کو بھی پیسے نہیں۔ مجھے کچھ کام دو۔‘‘
سوداگر نے کہا ’’ان لکڑیوں کو آری سے کاٹ کر چھوٹی چھوٹی کرو۔‘‘
’’مجھے اس کام کے کتنے پیسے ملیں گے؟‘‘دیو نے پوچھا۔
’’تم یہاں سے جتنی لکڑیاں ساتھ لے جاسکتے ہو، لے جانا۔‘‘ سوداگر نے چالاکی دکھاتے ہوئے کہا۔
دیو نے ساری لکڑیاں چند منٹوں میں کاٹ کر رکھ دیں۔ اس کے بعد اس نے سوداگر کے لکڑی کے مکان کے دروازے ، چھتیں اور لکڑی کی ہر چیز کاٹ ڈالی اور پھر اس سارے ڈھیر کو اپنی کمر پر لاد کر غائب ہوگیا۔