اسلام آباد(بی ایل ٰآئی)مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ ٹھنڈے دل سے سوچیں ہم پاکستان کو کس طرف لے کر جارہے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ نیب نے جسے میرے خلاف بڑی مشکل سے وعدہ معاف گواہ بنایا وہ بھی کچھ دستاویز پیش نہیں کرسکا۔ انہوں نے کہا کہ جو سچ ہے اس کا ذکر کروں گا، دورانِ حراست نیب حکام کا رویہ میرے ساتھ معقول تھا، نیب کا قانون کالا قانون ہے، یہ احتساب کے لیے نہیں بلکہ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کے لیے بنایا گیا، اس قانون کو بنانے والے کی بدنیتی عیاں تھی۔
(ن) لیگ کے رہنما کا کہنا تھا کہ اس ملک میں احتساب کے نام پر انتقام کی روش اختیار کی گئی، (ن) لیگ کے دور میں بھی احتساب کے عمل کو شفاف نہیں سمجھتا۔ خواجہ سعد رفیق نے سوال کیا کہ یہ محب وطن پاکستانی کون ہیں؟ جو درخواست لکھتے ہیں اور آپ کے خلاف کارروائی ہوتی ہے، یہ محب وطن کون ہیں جو دوسروں کو غدار سمجھتے ہیں، ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ مدعی کون ہے، جو تفتیش کررہے ہیں وہ خود نہیں جانتے اور جانتے ہیں تو بتانے کی سکت نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہا کہ نیب قانون کے حوالے سے پچھلے دس برس میں (ن) لیگ اور پی پی نے کوشش کی تو وہ مانتے تھے تو ہم نہیں مانتے تھے، اب ہم مان گئے ہیں تو آپ نہیں مانتے۔ خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ میں ان لوگوں میں شامل ہوں جو نہیں چاہتا کہ اب پی ٹی آئی کی شامت آئے کیونکہ اب ان کی باری ہے، ہم کسی کو سلاخوں کے پیچھے دیکھنا نہیں چاہتے۔
سابق وفاقی وزیر نے انکشاف کیا کہ دورانِ تفتیش ان سے پی ٹی آئی رہنما علیم خان کے بارے میں پوچھا گیا جس پر میں نے کہا کہ وہ ایک معقول آدمی ہیں، مجھ سے پوچھا گیا کہ ان کے بارے میں بتائیں تو میں نے کہا کہ میں کوئی انفارمر نہیں ہوں، آئندہ مجھ سے سیاسی مخالف کے بارے میں پوچھنے کی جرات نہ کریں۔ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ میرے اور میرے بھائی کی گرفتاری پر گزارا کرلیں کیونکہ مجھے شک ہے کہ اب بیلنس کرنے کے لیے پی ٹی آئی کے لوگوں کو پکڑا جائیگا اور میں یہ بات سنجیدگی سے کررہا ہوں، گرفتاریوں کے اسکور بورڈ میں پی پی اور (ن) لیگ کے مزید رہنماؤں کی گرفتاریوں کے اضافے کا انتظار نہ کریں کیونکہ یہ مہنگا پڑتا ہے۔
لیگی رہنما نے کہا کہ ملک میں جاہلانہ انتقام کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، کبھی ہم غدار تو کبھی شرپسند کہلاتے ہیں، ہم غدار اور شرپسند نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ آزاد نہیں ہے، اگر آزاد ہوتی تو پہلے دن ہی پروڈکشن آرڈر جاری ہوتے۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اگر ووٹ کی حرمت اور پارلیمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں تو قانونی، انتظامی اور آئینی امور پر ہمیں ایک آواز ہونا ہوگا، اگر نہیں ہوں گے تو منزل کھو دیں گے۔
سابق وزیر کا کہنا تھا کہ (ن) لیگ اور پی پی حکومت گرانے کی کوشش نہیں کررہی، اگر حکومت کے ذہن میں یہ خدشہ ہے تو اسے دور کریں، ہم جیلوں کا یہ عذاب بھگت رہے ہیں اور میں پہلی بار جیل نہیں گیا، ہم نے تو یہ عذاب بھگت لیا اوروں کو اس سے روکا جائے، انا اور انتقام ملک کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہ جہاں بھی ہے ان سب کو سوچنا چاہیے کہ کیا ہم پاکستان کی خدمت کررہے ہیں؟ یہ سانپ سیڑھی کا کھیل کب بند ہوگا؟ ملک میں بارہ مرتبہ انتخابی عمل ہوچکا اب یہ کھیل بند ہونا چاہیے۔
خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ ہمارے لوگوں کو چھ چھ سو ووٹوں سے ہرایا گیا، یہ چھ سو کا ہندسہ کسے پسند ہے یہ نہیں معلوم۔ انہوں نے کہا کہ ابھی وقت ہاتھ سے نہیں نکلا، ہمارا مقابلہ آپس میں نہیں بلکہ غربت، جہالت، انتہا پسندی اور معاشی بحران سے ہے، ملک بحرانو ں میں گھرا ہوا ہے،ہمیں ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ اس صورتحال سے پاکستان کو نکال سکتے ہیں، کیا لوگ ہمیں اس لیے ووٹ دیتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے پر الزام لگائیں اور گھسیٹیں، پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت بڑھنے جارہاہے، اگر زرداری کو گرفتار کیا گیا تو اس سے ہیجانی کیفیت پیدا ہوگی اس سے گریز کریں، سنا ہے کہ بلاول کو جس کیس میں بلایا گیا اس وقت ان کی عمر ایک سال کی تھی اس سے زیادہ تماشہ کیا ہوسکتا ہے اسے بند کرایا جائے۔
لیگی رہنما نے کہا کہ میری یہ اپیل عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی ہے کہ ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچیں ہم پاکستان کو کس طرف لے جارہے ہیں اس سے پاکستان کا ناقابلِ تلافی نقصان ہوسکتاہے، ہر جگہ دانشمند لوگ موجود ہیں جو ملک کو بحران سے نجات دلانے کے لیے کردار ادا کرسکتے ہیں، ہمیں مکالمہ کرنا چاہیے اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاستی اداروں اور اپوزیشن کو آن بورڈ لے،حالات نے یہ ذمہ داری حکومت پر ڈال دی ہے یہ اس سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔
سعد رفیق کا کہنا تھاکہ (ن) لیگ اور پی پی کو چاہیے کہ وہ چارٹر آف ڈیموکریسی پر بات کریں اور اسے باقی جمہوری سیاسی جماعتوں تک بڑھائیں۔ اس سے قبل اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی جانب سے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے پر سعد رفیق کو لاہور سے اسلام آباد لایا گیا ہے جہاں پارلیمنٹ لاجز میں ان کی رہائش گاہ کو ہی سب جیل قرار دیا گیا ہے۔