“نجوم آزادی” کتاب کی تقریب رونمائی

کراچی(بی ایل ٰآئی) آزادی ایک انمول نعمت ہے جس کے لیے بیش بہا قربانیاں دی گئیں، آزادی ملی نہیں بلکہ مستقل جدوجہد کے بعد حاصل کی گئی۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر سحر انصاری نے گزشتہ روز آرٹس کونسل میں منعقدہ “نجوم آزادی” کتاب کی تقریب رونمائی کے موقع پر کیا۔ مصنف سید سعید احمد کی کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں مختصر کتابیں قبولِ عام پاتی ہیں اسی مناسبت سے مصنف نے “نجوم آزادی” میں مختلف واقعات کا نچوڑ پیش کیا ۔ انہوں نے ماضی کی چند کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے علمی و تعلیمی نصاب میں تاریخ کی اہمیت کو بتدریج کم کیا گیا، اس موضوع پر خورشید کمال عزیز کی کتاب ” A murder of history ” بہت مشہور ہوئی۔ خواجہ رضی حیدر نے کتاب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب قومی رہنماو ¿ں کی حیات پر مبنی ہے، اس میں موجود معلومات شاید نئی نہ ہوں مگر بیانیے نے تذکرے کو تازہ کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مولوی فضل الحق، راجہ صاحب محمودآباد، بہادر یار جنگ ہماری تاریخ کہ وہ ستون ہیں جن کی حیات کو عام کرنے سے نئی نسلوں کی کردار سازی اور شخصیت سازی کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہم نے انہی قومی رہنماو ¿ں کی آواز پر لبیک کہا اور علیحدہ وطن حاصل کیا، آج ہمیں ایک ولولہ ِ تازہ کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو صحیح معنوں میں قائدِاعظم کا پاکستان بنایا جاسکے۔ تقریب میں نظامت کے فرائض اشعر سعید نے انجام دیئے جبکہ صدرِ محفل سراج الدین عزیز تھے۔ سراج الدین عزیز نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “نجوم آزادی” کی اشاعت سے پہلے مجھے اپنی علمیت پر بڑا ناز تھا لیکن اس میں موجود چند شخصیات کے بارے میں میرا علم بڑا محدود تھا۔ انہوں نے کتاب میں درج واقعات میں سے پڑھ کر سنایا کہ مولانا محمد قاسم نانوطوی تحریک آزادی کی متحرک شخصیت تھے، ایک محفل میں تقریر کے دوران مقرر نے سوال کیا کہ ہم تو کمزور ہیں، انگریزوں کا مقابلہ کیسے کریں گے؟ قاسم نانوطوی نے کہا کیا ہم اصحابِ بدر سے بھی زیادہ بے بس ہیں؟ جس پر انہیں اسٹیج پر بلا کر مسلمانوں میں جذبہ پیدا کرنے کے لیے تقریر کروائی گئی۔ سراج الدین عزیز نے کہا کہ ہم نے اپنی قوم سے بددیانتی کی، نئی نسل کو مسخ شدہ تاریخ پڑھائی اور اپنے محسنوں کی بابت کچھ نہ بتایا۔ انہوں نے مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر اور خواجہ ناظم الدین کے بارے میں اقتباسات بھی حاضرین محفل کو پڑھ کر سنائے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں اس کتاب کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے، اسے بڑے پیمانے پر لوگوں میں تقسیم کیا جانا چاہئے تاکہ نئی نسل کو اپنے آبا اور آزادی کے لیے دی گئی ان کی قربانیوں کی قدر و منزلت معلوم ہوسکے۔ تقریب کے آخر میں “نجوم آزادی” کے مصنف سید احمد سعید نے کہا کہ یہ کتاب لکھتے وقت میرے پیشتر دو مقاصد تھے۔ اول یہ کہ پاکستان بنانے اور مسلمانوں کو تشخص دینے والی شخصیات کے کارناموں کے بارے میں لوگوں کو پتا چلے، معلومات ضرور ہیں مگر تفصیلی کارناموں سے خال خال لوگ ہی واقف ہیں۔ قیامِ پاکستان سے قبل علمی و معاشرتی ترقی کے حوالے سے ہونے والے کام کو بے دردی سے نظرانداز کیا گیا۔ یہی کام موجودہ نسل تک پہنچانے کے لیے 20 افراد کا انتخاب کرکے ان کے شخصیتی خاکے مرتب کیے۔ دوئم یہ کہ اپنی پہچان کی جائے کہ ہم میں کیا صلاحیت اور خوبی ہے اور اسے کس طرح نکھارا جاسکتا ہے۔ تاریخ ان کو یاد رکھتی ہے جو کسی کی خدمت کرکے جاتے ہیں، ایسا کام کریں جو ملک و ملت کے لیے سودمند ثابت ہوں۔

About BLI News 3238 Articles
Multilingual news provider for print & Electronic Media. Interviews, Exclusive Stories, Analysis, Features, Press Conferences Photo & Video Coverage and Economic Reviews, Pakistan and Worldwide. Opinions, Documentaries & broadcast.