لندن: بلغاریہ کی مشہور خاتون آنجہانی نجومی بابا وینگا کا نام دنیا بھر میں مقبول ہے جنہوں نے بہت سے تباہ کن واقعات کی پیش گوئی کی اور ان کی 80 سے 90 فیصد پیش گوئیاں پوری ہوئی ہیں جبکہ انہوں نے اگلے سال کےلیے دو اہم پیش گوئیاں کی ہیں۔
بابا وینگا نے کہا ہے کہ سال 2018ء میں چین ایک معاشی قوت بن کر ابھرے گا اور کئی لحاظ سے امریکہ کو پیچھے چھوڑ دے گا دوسری جانب سیارہ وینس پر توانائی کا ایک نیا ذریعہ بھی دریافت ہوگا تاہم ان کی دونوں پیش گوئیاں پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔
اس کی وجہ یہ ہے صرف ایک سال میں چین امریکہ کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا دوسری جانب سیارہ وینس کے قریب کسی مصنوعی سیارے یا خلائی جہاز کے پہنچنے کا کوئی امکان نہیں لیکن ایک خلائی جہاز 2018ء میں ضرور روانہ کیا
بلغاریہ کی زبان میں ’’بابا‘‘ دادی یا نانی کو کہا جاتا ہے اور یہ خاتون ایک حادثے میں نابینا ہوگئی تھیں۔ بابا وینگا جنوری 1911ء میں بلغاریہ میں پیدا ہوئی تھیں اور وہ ایک مشہور مذہبی پیشوا، جڑی بوٹیوں کی حکیم تھیں۔ ان کے متعلق مشہور تھا کہ وہ غیرمعمولی اور پراسرار صلاحیتوں کی مالک ہیں اور ان کے علاج سے بیمار ٹھیک ہوجاتے تھے۔
کہتے ہیں کہ انہوں نے روسی زوال، چرنوبل ایٹمی حادثے، 2004 میں انڈونیشیائی سونامی، 11 ستمبر کے ورلڈ ٹریڈ ٹاور حملوں کی پیش گوئی کی تھی تاہم ان کی بعض پیش گوئیاں غلط بھی ثابت ہوئی ہیں۔ بابا وینگا کا انتقال 11 اگست 1996 کو ہوا تھا جبکہ انہیں بلقان کی نوسٹراڈیمس بھی کہا جاتا ہے۔
بابا وینگا کے مطابق دنیا کا خاتمہ 51 صدی عیسوی میں ہوجائے گا جبکہ سال 2018 کےلیے انہوں نے چین کے عروج اور اس کے سپرپاور بننے کی پیش گوئی کر رکھی تھی۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ اس سال سیارہ وینس میں توانائی کا ایک نیا ذریعہ دریافت ہوجائے گا۔
دوسری جانب ناسا اگلے سال سورج کی جانب ایک خلائی جہاز روانہ کرے گا جسے پارکر سولر پروب کا نام دیا گیا ہے۔ پہلے اسے 2015 میں سورج کی جانب بھیجا جانا تھا لیکن اب اسے جولائی 2018 میں بھیجا جائے گا۔ یہ روبوٹ جہاز سورج کے بیرونی کنارے یا کرونا تک جائے گا۔
پارکر سولر پروب وینس تک تو نہیں جائے گا لیکن اس کے قریب سے گزرتے ہوئے اس کی ثقلی قوت کو استعمال کرکے آگے کی جانب بڑھے گا۔ پارکر سولر پروب کا مقصد سورج پر توانائی کا اندازہ لگانا، اس کے مقناطیسی میدان کی پیمائش اور سورج سے اٹھنے والے پلازما پر تحقیق کرنا ہے۔
دوسری جانب عالمی تجزیہ کار پہلے ہی پیش گوئی کرچکے ہیں کہ عالمی جی ڈی پی میں چین