کراچی ( اسٹاف رپورٹر) گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ڈاکٹر رضا باقر نے کہا ہے کہ مہنگائی کے مزید جھٹکے لگ سکتے ہیں اس لئے عوام صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور مثبت سوچ رکھیں، مہنگائی کم کرنا ہمارا مقصد ہے جو کچھ وقت میں کم ہوجائے گی تاہم مسائل کافی بڑے ہیں جنہیں حل کرنے میں وقت لگے گا.
ہماری صورتحال مشکل تھی اور ڈیفالٹ بھی ہوسکتا تھاجس پر ہم نے معیشت کیلئے مشکل فیصلے کیے اور اب صورتحال دن بدن بہتر ہو رہی ہے، ماہانہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ نصف رہ گیا ، ایف بی آر سے تعاون کریں ، 2017ء میں فارن ایکسچینج ریٹ سسٹم نافذ ہوجاتا تو آئی ایم ایف نہ جانا پڑتا، بجلی گیس قیمتیں بڑھانے سے مہنگائی بڑھی جسے کم کرنےکیلئے شرح سود میں اضافہ کیا.
2015ء تک تجارتی خسارہ صفر تھا اور زرمبادلہ کے ذخائر 18؍ ارب ڈالر تھے، 2016ء سے خسارہ بڑھنا شروع ہوا۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے ’بریک فاسٹ ود جنگ ‘ سے خطاب کے دوران کیاجس کا موضوع ’’کرنٹ اکنامک چیلنجز اینڈ دی رول آف اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘‘ تھا۔
اس موقع پر جنگ میڈیا گروپ کے سرمد علی اور حمید لودھی بھی موجود تھے ۔ ڈاکٹر رضا باقر نے کہا کہ اس ساری صورتحال پر بات کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ہم ان حالات تک کیسے پہنچے ، پھر کیوں مشکل فیصلے کیے گئے اور اب کیوں کہا جا رہا ہے کہ حالات بہتر ہوں گے ۔
انہوں نے کہا کہ 2015ء تک پاکستان کا تجارتی خسارہ صفر تھا جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 18؍ ارب تھے تاہم 2016 ء سے تجارتی خسارہ بڑھنا شروع ہوا اور ایکسچینج ریٹ ایڈجسٹ نہ ہونے سے زرمبادلہ ذخائر کم ہونا شروع ہوگئےجس سے پریشانی ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ بیرونی خسارہ بڑھتا جارہاتھا اورایکسچینج ریٹ ایڈجسٹ نہیں ہو رہا تھاکیونکہ ایکسچینج ریٹ کا فیصلہ ایک ادارہ کر رہا تھاجبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ماہانہ 2؍ ارب ڈالر تک پہنچ گیا جس پر قرضہ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی اقتصادی نظام میں قرضہ دینے والے آپ کی حالت اور واپس ادائیگی کی استطاعت دیکھتے ہیں جب دوست ممالک نے ہاتھ کھینچا تو آخری راستہ آئی ایم ایف تھا۔
گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف بھی کسی کو قرضہ دینے سے پہلے دو چیزیں ضرور دیکھتا ہے کہ جن مسائل کے حل کے لئے قرضہ لیا جارہا ہے ان کے حل کے لئے کیا پالیسی لائی گئی ہے اور کیا ملک کا خسارہ اتنا زیادہ تو نہیں کہ قرضہ واپس نہ کیا جاسکے اسی بنیاد پر ہمیں ایک مشکل پروگرام کا انتخاب کرنا پڑااور سخت فیصلے کیے گئے ۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کیلئے 6 ؍ ارب ڈالرز قرض کی منظوری دی اور پاکستان نے 99 ؍ کروڑ 10 لاکھ ڈالرز کی پہلی قسط وصول کر لی ، سخت فیصلوں کے بعد عوام کو پریشانی ہوئی تاہم ہمیں دیگر ممالک کے تجربات سےعلم تھا کہ شروع میں پریشانی ہو گی لیکن یقین تھا کہ جیسے ہی مارکیٹ بوسٹ اپ ہوگی تو حالات بہترہوں گے اور آج حالات بہتر ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے مارکیٹ ریٹ سسٹم کا نفاذ کیا ہے جس سے ماہانہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ نصف رہ گیا ہے ۔ اگر 2017ء میں یہی نظام نافذ کیا جاتا ، ریٹ سیٹ ہو جاتا اورذخائر کم نہ ہوتے تو آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت نہ پڑتی ، آج روپے کی قدر مارکیٹ طے کر رہی ہے جس سے تمام قیاس آرائیاں ختم ہو گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خسارے کو کم کرنے کےلئے بجلی اور گیس کے ریٹ بڑھانے پڑے جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوا اور مہنگائی کم کرنے کے لیے شرح سود بڑھانا پڑی جس سے عوام کو پریشانی کا سامناکرنا پڑرہا ہے ، مستقبل میں مہنگائی کے مزید جھٹکے لگ سکتے ہیں اس لئے عوام صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور مثبت سوچ رکھیں ۔
انہوں نےعوام سے کہا کہ ایف بی آر سے تعاون کریں یہ آپ سب کے حق میں ہے اگر زیادہ لوگ ٹیکس ادا کریں گے تو سب پر بوجھ کم ہوگا، ہمارا نظام فری فلوٹ نہیں کہ مرکزی بینک مداخلت نہ کرسکے لیکن ہمارا مستقبل روشن ہے، ہم ڈیجیٹل پے منٹس کو پش کرنے کیلئے ورلڈ بینک کے ساتھ کام کر رہے ہیں جس سے صارفین کو فائدہ ہوگا۔
جنگ میڈیا گروپ کے سرمد علی نے اس موقع پر کہا کہ بریک فاسٹ ود جنگ میں مختلف پالیسی سازوں ، سیاسی، ثقافتی اور سماجی شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے جس کا مقصد عوام کو ایک اوپن پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے تاکہ عوام بھی اس میں حصہ لے سکیں ان سے سوال کر سکیں اور کچھ سیکھ کر واپس جائیں۔