عام انتخابات 25 جولائی کو منعقد ہوں گے، مسلسل دو جمہوری منتخب حکومتوں نے مدت مکمل کرلی اور جمہوریت کا یہ سفر کامیابی سے جاری ہے۔ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات پر دنیا بھر کی نظریں لگی ہوئی ہیں کیونکہ اس روز پاکستان کے عوام آئندہ 5 سالوں کیلئے اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں گے، جن میں سے ایک شخص وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالے گا۔
کراچی کی سیاست ملک کی سیاسی صورتحال سے یکسر مختلف ہے، سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے تمام شہروں اور اضلاع میں آمریت نما جمہوریت قائم ہے جہاں آج بھی وڈیرہ شاہی نظام رائج ہے، آج بھی ہر صوبے میں برادری کی بنیاد پر ووٹ مانگے اور حاصل کئے جاتے ہیں، کراچی پاکستان کا وہ واحد شہر ہے جہاں وڈیرہ شاہی نظام رائج نہیں، کراچی میں برادری سسٹم پر بھی کوئی یقین نہیں رکھتا، اس لئے یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ تخت کراچی پر کس کا راج ہوگا؟، یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ کراچی اس وقت ملکی سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے۔
پچھلے کئی مہینوں سے سن رہے ہیں کہ ملک کا آئندہ وزیراعظم کراچی سے ہوگا، پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کراچی کے مشہور ترین علاقے لیاری میں پیدا ہوئے اور لیاری سے الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات نامزدگی بھی جمع کروا چکے ہیں، بلاول بھٹو اپنے پارلیمانی سفر کا آغاز لیاری سے کرنے جارہے ہیں جہاں سے ان کی والدہ محترمہ بینظیر بھٹو نے پارلیمانی سیاست کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی کراچی سے انتخاب لڑنے کا اعلان کرچکے ہیں اور گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کے سینئر رہنما عمران اسماعیل نے بھی کہا تھا کہ ملک کا اگلا وزیراعظم کراچی سے ہوگا اور عمران خان کراچی سے انتخابات میں حصہ لیں گے۔
مسلم لیگ ن کے مرکزی صدر میاں شہباز شریف بھی کراچی کے 3 حلقوں سے کاغذات نامزدگی حاصل کرچکے ہیں جبکہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف بھی کراچی سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
ایک وقت تھا جب کراچی میں ایم کیو ایم کے علاوہ کسی کو بھی کھل کر سیاست کرنے کا حق حاصل نہیں تھا مگر آج شہر قائد میں تمام سیاسی جماعتیں آزادانہ طور پر سیاسی عمل میں حصہ لے رہی ہیں اور ایم کیو ایم دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے، شہر قائد کی سب سے بڑی جماعت ایم کیو ایم عام انتخابات میں کتنی نشستیں حاصل کرسکے گی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا مگر شہر کی موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ ایم کیو ایم ماضی کی طرح کامیابی حاصل نہیں کر پائے گی۔
کراچی میں اصل مقابلہ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے درمیان ہوگا، ممکن ہے ایم کیو ایم کراچی کی سب سے بڑی جماعت نا رہے کیونکہ متحدہ کے بہت سے اہم رہنماء پی ایس پی میں شامل ہوچکے ہیں اور باقی دھڑوں میں تقسیم ہوچکے ہیں جبکہ ایم کیو ایم لندن انتخابات کا بائیکاٹ کرچکی ہے، اس لئے اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد انتخابات کا بائیکاٹ کر سکتی ہے جس کا نقصان صرف اور صرف ایم کیو ایم کو ہوگا۔
ایم کیو ایم کی کمزور سیاسی پوزیشن کا فائدہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کو ہوگا، پچھلے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو شہر قائد سے ناقابل یقین ووٹ ملا تھا اور تحریک انصاف کراچی سے ساڑھے 8 لاکھ ووٹ لینے میں کامیاب رہی تھی، ووٹوں کے اعتبار سے تحریک انصاف کراچی کی دوسری بڑی جماعت بن گئی تھی مگر پچھلے پانچ سالوں میں پی ٹی آئی قیادت نے کراچی پر توجہ نہیں دی، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پیپلز پارٹی نے کراچی میں اپنی جڑوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔
پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کراچی سے 6 قومی اسمبلی اور 12 صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے، سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ پولنگ ڈے پر پیپلز پارٹی کراچی کی اکثریتی جماعت بن کر ابھر سکتی ہے۔