کراچی:
پاکستان میں معاشی ترقی کی رفتار اور اعتماد بڑھ رہا ہے مگر ناقدین کہتے ہیں کہ یہ کروڑوں غریبوں کے لیے کافی نہیں، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھی اکتوبر میں دعویٰ کیاتھا کہ بیل آؤٹ پروگرام مکمل ہونے کے بعد پاکستان بحران سے نکل آیا ہے اور اس کی معیشت مستحکم ہو گئی ہے۔
ملک کی کریڈٹ ریٹنگ بھی بہتر ہوگئی جبکہ بھاری بھرکم چینی انفرااسٹرکچر پروجیکٹ جسے حکام عمومی طور پر ’’گیم چینجر‘‘ کہتے ہیں جیسے غیرملکی سرمایہ کاری کے حوصلہ افزا اشارے بھی مل رہے ہیں لیکن یہ سب چکاچوند دعوے شاہ نواز جیسے لاکھوں لوگوں کا پیٹ نہ بھرسکے جو پاکستان کے مالیاتی مرکز کراچی کے ان ہزاروں لوگوں میں سے ایک ہے جنھیں خیراتی ادارے کھانا فراہم کرتے ہیں۔
یہ 14سالہ لڑکا سیلانی ویلفیئر کی عمارت کے سامنے دیگر 100سے زائد افراد کے ساتھ اپنی فیملی کے لیے دو وقت کا مفت کھانا لینے کے لیے کھڑا تھا، 4سال قبل اس نے اسکول چھوڑ دیا جب پاکستانی قومی پیداوار (جی ڈی پی) ابھی 3فیصد کی کمزور شرح نمو کے ساتھ ترقی کر رہی تھی اور اس کے اہل خانہ اس کے والد کی معمولی جزوقتی 250 روپے یومیہ اجرت پر بڑی مشکل سے گزر بسر کر رہے تھے۔
فرانسیسی خبر ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ نواز نے کہاکہ مجھے پڑھنے کابہت شوق ہے اور میں بہت امیر آدمی بننا چاہتا ہوں مگر ایسا نہیں کرسکتا۔ اس کی مایوسی کی بازگشت پاکستان بھرمیںہے جہاں مرکزی بینک کی نئی رپورٹ کہتی ہے کہ 60.6فیصد آبادی کی پکانے کے ایندھن تک رسائی نہیں، آدھے بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں اور ایک تہائی پاکستانیوں کو بنیادی طبی سہولت تک رسائی نہیں۔
فلاحی رہنما عامر سیلانی نے بتایا کہ ہمارے مرکز آنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ لوگ بھکاری نہیں مگر غریب ہیں جو اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں۔
وزیراعظم نوازشریف نے 2013 میں تیسری مدت کے لیے فتح کے بعد طویل مدت سے دباؤ کی شکار معیشت کو ترقی دینے کے عزم کا اظہار کیا تھا، سب سے بڑا مسئلہ دائمی توانائی بحران تھا اور بجلی کی قلت کے باعث فیکٹریاں بند اور آئے روز کاروبار رک جاتا تھا، انھوں نے ایک درجن سے زائد کوئلہ، پانی، گیس اور کمبائنڈ سائیکل پاور جنریشن پلانٹس کی منظوری دی جن میں سے بیشتر 2017 کے وسط تک بجلی کی پیداوار شروع کریں گے۔
دریں اثناء ان کے مشیروں نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے 3سالہ ایکسٹینڈفنڈ فیسلیٹی حاصل کی تاکہ 6.4ارب ڈالر حاصل کیے جاسکیں جس نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقوم کے ساتھ مل کر غیرملکی زرمبادلہ ذخائر 22ارب ڈالر تک پہنچادیے جو2008 میں 3ارب ڈالرتھے، مالی سال 2015-16 میں معیشت نے 4.7 فیصد ترقی کی جبکہ مہنگائی 3.8فیصد کی کم سطح پرآگئی اور شرح سود 5.75 فیصد تک گر گئی، 182ارب ڈالر کے مقامی قرض سے گھبرائے بغیر حوصلہ مند اسلام آباد نے مالی سال 2016-17 کیلیے معاشی ترقی کا ہدف 5.7 فیصد مقرر کیا ہے۔
ورلڈ بینک نے2018 تک گروتھ 5.4 فیصد پر پہنچنے کی امید ظاہر کی ہے مگر غیرجانبدار اقتصادی ماہرین کو معاشی ترقی کے پائیدار ہونے پر شک ہے۔ سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ اسلام آباد کے سربراہ عابد سلیری نے کہاکہ ہم مصنوعی مدد پر چل رہے ہیں اورآئی ایم ایف سہولت ختم ہونے کے بعد حکومت کی حقیقی فیصلہ کن آزمائش ہوگی۔
سوشل پالیسی اینڈ ڈیولپمنٹ سینٹر کراچی میں سینئراکنامسٹ محمد صابر نے کہاکہ غربت میں کمی لانے کیلیے مسلسل 5 سال تک 6 فیصد کے قریب پائیدار ترقی کی ضرورت ہے۔
بیجنگ کے 46ارب ڈالر کے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) سے امیدیں وابستہ کرلی گئی ہیں جس کا مقصد ایشیائی سپرپاور کے زن جیانگ ریجن کو پاکستان کے ذریعے بحرہ عرب سے جوڑنا ہے، منصوبے میں انفرااسٹرکچر، پاور اور ٹرانسپورٹ منصوبوں کا احاطہ کیا گیا ہے جس سے اسلام آباد کو معیشت کو مہمیز کرنے کی امید ہے مگر ماہرین کہتے ہیں کہ ڈیل مبہم ہے اور اس کے پاکستان پر اثرات کی تشخیص کیلیے اور زیادہ شفافیت کی ضرورت ہے مثال کے طور پر کیا 46ارب ڈلر سرمایہ کاری ہے یا قرض۔
محمد صابر نے متنبہ کیاکہ اگر یہ قرض ہے تو مستقبل میں ملک کی غیرملکی ادائیگیوں کی صلاحیت کو سخت متاثر کریگا۔ مرکزی بینک کے مطابق بیرونی قرضہ 73ارب ڈالر کے قریب ہے جو جی ڈی پی کے چوتھائی سے کچھ زیادہ ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کے کنٹری ڈائریکٹر پاکستان ورنر لیپیک نے کہاکہ سی پیک کے اثرات کے حوالے سے کچھ کہنا بہت زیادہ قبل ازوقت ہوگا تاہم موجودہ چیلنجنگ عالمی پس منظر میں بہت سوں کی سوچ کے برعکس پاکستان حقیقت میں بہت اچھا کام کر رہا ہے، اگرچہ پاکستان میں ترقی کے ثمرات بلند سطح کی نمو ظاہر کرسکنے والے دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابل بہت وسیع تر ہیں مگر امتیاز بہت ہے، بہرحال بہتری کی گنجائش موجود ہے۔