مختلف علاقوں میں واٹر اینڈ سیوریج بورڈ انتظامیہ کی ملی بھگت سے غیر قانونی واٹر ہائڈرینٹ کا کاروبار ایک بار پھر سے شروع ہو گیا ہے

رپورٹ :خالدزمان تنولی
شہر کے مختلف علاقوں میں واٹر اینڈ سیوریج بورڈ انتظامیہ کی ملی بھگت سے غیر قانونی واٹر ہائڈرینٹ کا کاروبار ایک بار پھر سے شروع ہو گیا ہے ، جسے علاقہ پولیس اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ انتظامیہ کی مکمل سرپرستی حاصل ہے ، اہل علاقہ کی جانب سے متعلقہ اداروں میں متعدد بار شکایات کرنے کے باوجود بھی متعلقہ ادارہ ان غیر قانونی واٹر ہائڈرینٹ کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی قانونی کارروائی عمل میں نہی لا رہا ہے ، غیر قانونی واٹر ہائڈرینٹ کے باعث جن علاقوں میں یہ ہائڈرینٹ قائم کئے گئے ہیں وہاں پانی کا بہران سنگین صورتحال اختیار کر گیا ہے اور مزکورہ علاقوں کے رہائشی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں ،ابتدائی طور پر ملنے والی معلومات سے 12غیر قانونی واٹر ہائڈرینٹس کا سراغ لگایا گیا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ جن چھ واٹر ہائڈرینٹس کو واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی جانب سے قانونی قرار دیا گیا ہے ان پر بھی متعلقہ محکمے کی جانب سے لگائی جانے والی شرائط و ضوابط کی مسلسل خلاف ورزی کی جارہی ہے ، اور واٹر ہائڈرینٹس کو 8گھنٹے چلانے کے بجائے 24گھنٹے چلایا جا رہا ہے اور عوام کا پانی چوری کرکے عوام کو ہی مہنگے داموں فروخت کیا جا رہا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی جانب سے واٹر ہائڈرینٹس کے لئے کھولے جانے والے ٹینڈرز میں بھی کھلی دھاندلی اور کرپشن کا انکشاف ہوا ہے جس میں سیپرا رول اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی ہے اور ٹینڈر اپنے من پسند ٹھیکیداروں کو بھاری رشوت کے عوض دئیے گئے ہیں ، شہر میں جاری پانی کے بہران کے حوالے سے جب سروے شروع کیا تو یہ بات سامنے آئی کے کراچی میں پانی کا بہران نہی ہے بلکہ پانی کا بہران واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے بعض راشی افسران واٹر ہائڈرینٹس چلانے والے ٹھیکیداروں اور غیر قانونی واٹر ہائڈرینٹس چلانے والے پانی چوروں سے بھاری رشوت کی وصولی کے عوض جان بوجھ کر پیدا کر رہے ہیں اور پانی کے بلکتے اور ترستے کراچی کے شہریوں کی کہیں بھی کوئی شنوائی نہی ہو رہی ہے ، امت نے جب اس معاملے میں معلومات جمع کرنا شروع کی تو ابتدائی طور پر کراچی کے بعض علاقوں میں 12غیر قانونی واٹر ہائڈرینٹس چلنے کا انکشاف ہوا ہے جنہیں واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور علاقہ پولیس کی مکمل سرپرستی حاصل ہے ، زرائع اور سروے کے مطابق سکھن تھانے کی حدود میں بھینس کالونی روڈ نمبر 5پر واٹر بورڈ اورعلاقہ پولیس کی ملی بھگت سے ایک غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹ قائم تھا مگر چند روز قبل واٹر بورڈ کے نئے ایم ڈی کی تعیناتی کے بعد مذکورہ غیر قانونی ہائیڈرنٹ کوبھینس کالونی روڈ نمبر 5 کے آخر میں منتقل کر دیا گیا ہے جہاں سے رات 9 بجے کے بعد 50 سے زائد 36 سو گیلن والے ٹینکرز بھرکر شہر کے مختلف علاقوں میں فروخت کے لئے روانہ کئے جاتے ہیں ، اسی طرح سکھن تھانے کی ہی حدود ریڑھی گوٹھ روڈ پولیس چوکی کے پاس لالہ آباد روڈ پر 200 گز کے پلاٹ میں ہزاروں لیٹر گیلن پر مشتمل پانی کی ٹینکس بنائے گئے ہیں جن میں واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی لائنوں میں نقب لگا کر پانی بھرا جاتا ہے اور پھر ان ٹینکوں کے زریعے رات کی تاریکی میں ٹینکرز بھرکے شہر کے مختلف علاقوں میں فروخت کے لئے روانہ کئے جاتے ہیں ، ان غیر قانونی ہائڈرینٹس کی سرپرستی کے عوض واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے بعض افسران اور علاقہ پولیس یومیہ ہزاروں روپے رشوت وصول کرتی ہے ، زرائع کے مطابق عوامی کالونی تھانے کی حدود عوامی کالونی سے کورنگی کاز وے پل کی طرف جانے والے سڑک کے پاس قائم ایک نجی کمپنی میں بھی ایک غیر قانونی واٹر ہائڈرینٹ چل رہا ہے اور اس واٹر ہائڈرینٹ کو بھی علاقہ پولیس اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے بعض راشی افسران کی مکمل سرپرستی حاصل ہے ، مذکورہ کمپنی سے یومیہ 20 سے زائد 18 ویلرز واٹر ٹینکرز چوری شدہ پانی سے بھر کر شہر کے مختلف علاقوں میں فروخت کئے جاتے ہیں اور یومیہ کی بنیاد پر متعلقہ محکمے کے افسران اور علاقہ پولیس کو بھی رشوت دی جاتی ہے جبکہ اس حوالے سے کمپنی کے منیجر کا یہ کہنا ہے کہ یہ بورنگ کا پانی ہے جو ہم ٹینکرز میں بھر کر اس فیکٹری سے اپنی دیگر کمپنیوںکو سپلائی کرتے ہیں ، جبکہ زرائع کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہی ہے بلکہ اس کمپنی سے نکلنے والے ٹینکرز باہر فروخت کئے جا رہے ہیں ، کورنگی صنعتی ایریا تھانے کی حدود مہران ٹاو¿ن کے پاس بھی ایک نجی کمپنی میں رفیق نامی شخص غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹ چلا رہا ہے، ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ شخص اپنے 2 درجن سے زائد واٹر ٹینکرزکی مدد سے پانی چوری کرکے کراچی کے پوش علاقوں میں فروخت کرتا ہے ، کورنگی صنعتی ایریا میں قائم اس غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹ پر مخصوص واٹر ٹینکرز کو ہی اندر جانے کی اجازت دی جاتی ہے ، اور اس واٹر ہائڈرینٹ کی سرپرستی کے عوض بھی علاقہ پولیس اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا عملہ یومیہ کی بنیاد پر رشوت وصول کر رہا ہے ، اسی طرح سائٹ سپر ہائی وے تھانے کی حدود میں بھی تین غیر قانونی واٹر ہائڈرینٹس کام کر رہے ہیں جن میں سے ایک غیر قانونی واٹر ہائڈرینٹ سائٹ سپر ہائی وے 2تھانے والی سڑک پر ہی قائم ہے جسے وحید نامی شخص چلا رہا ہے اور اس کی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے بعض افسران اور علاقہ پولیس سے بھی سیٹنگ ہے اپنے غیر قانونی کام کی سرپرستی کے عوض وہ متعلقہ محکمے اور علاقہ پولیس کو یومیہ کی بنیاد پر ہزاروں روپے رشوت دیتا ہے اور اپنے واٹر ہائڈرینٹس سے 50سے زائد ٹینکرز بھر کر شہر کے مختلف علاقوں میں سپلائی کرتا ہے،اسی طرح مزکورہ تھانے کی ہی حدود شاد باغ سوسائٹی میں بھی ایک غیر قانونی واٹر ہائڈرینٹ چل رہا ہے جسے چلانے والے شخص کا نام افضل ہے جو واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا پانی محکمے کی کالی بھیڑوں کی ملی بھگت سے چوری کرکے شہر کے مختلف علاقوں میں انتہائی مہنگے داموں فروخت کر رہا ہے اور اس کی جانب سے بھی علاقہ پولیس اور متعلقہ محکمے کے بعض راشی افسران کو یومیہ کی بنیاد پر ہزاروں روپے رشوت دی جارہی ہے ، اسی طرح اس تھانے کی ہی حدود NKاسٹاپ پر شمشیر اور نثار نامی شخص واٹر ہائڈرینٹ چلا رہے ہیں اور ان افراد کو بھی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور علاقہ پولیس کی مکمل سرپرستی حاصل ہے ، زرائع کا کہنا ہے کہ اس واٹر ہائڈرینٹ سے یومیہ 30سے زائد دیوہیکل ٹینکرز پانی سے بھر کر شہر کے مختلف علاقوں میں فروخت کے لئے سپلائی کئے جا رہے ہیں ، جس کی وجہ سے مزکورہ علاقے میں آئے روز پانی کا بہران رہتا ہے اور مزکورہ علاقے کے رہائشی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں ، اسی طرح سہراب گوٹھ تھانے کی حدود ایوب گوٹھ میں بھی ایک غیر قانونی واٹر ہائڈرینٹ کام کر رہا ہے جسے سکندر نامی شخص چلا رہا ہے اور اس کے بھی علاقہ پولیس اور متعلقہ محکمے کے بعض راشی افسران سے مکمل سیٹنگ ہے جس کی وجہ سے یہ دھڑلے سے پانی چوری کرکے فروخت کرنے کا کام کر رہا ہے اور اسے کوئی بھی روکنے ٹوکنے والا نہی ہے ، اسی طرح پیر آباد تھانے کی حدودبلوچ کالونی منگھو پیر روڈ ایم پی آر کالونی میںکلیم نامی شخص غیر قانونی ہائڈرینٹ چلا رہا ہے جس سے یومیہ 40کے قریب ٹینکرز بھر کے شہر کے مختلف علاقوں میں فروخت کئے جاتے ہیں ، اسی طرح اسی تھانے کی حدود میںواقع منگھو پیر روڈ بابو ہوٹل کے برابر میں ایک واٹر ہائڈرینٹ واقع تھا جسے واٹر ایند سیوریج بورڈ نے بند کروا دیا تھا جسے کلیم اور اس کے بھائی نے پھر سے قابل استعمال بنا لیا ہے اور رات کی تاریکی میں اس واٹر ہائڈرینٹ سے بھی ٹینکرز پانی سے بھر کر شہر کے مختلف علاقوں میں فروخت کئے جاتے ہیں ، اسی کے ساتھ ساتھ اورنگی ٹاﺅن تھانے کی حدود اورنگی نمبر 5میں بھی ایک غیر قانونی واٹر ہائڈرینٹ کام کر رہا ہے جسے شاکر نامی شخص چلاتا ہے اور اسے بھی متعلقہ ادارے اور علاقہ پولیس کی مکمل آشیر باد حاصل ہے ، اسی طرح کنواری کالونی میں بھی ایک غیر قانونی واٹر ہائڈرینٹ کام کر رہا ہے جسے اجمل نامی شخص چلا رہا ہے ، اور اس کے ہائڈرینٹ سے بھی یومیہ 25کے قریب ٹینکرز پانی سے بھر کے شہر کے مختلف علاقوں میں فروخت کے لئے سپلائی کئے جاتے ہیں ،کراچی میں قائم قانونی ہائیڈرنٹ پر کمپلین کی آڑ میں تجارتی بنیاد پر پانی کی سپلائیکیا جاتا ہے ، زرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ہائیڈرنٹ کے منیجرز کمرشل پانی سپلائی کرنے والے واٹر ٹینکزز سے واٹر بورڈ کے مقرر کردہ نرخوں سے زائدقیمت وصول کرتے ہیں جس کے باعث واٹر ٹینکرزمالکان شہریوںوہ رقم نکالتے ہیں اور انہیں پانی منہ مانگے داموں پر فروخت کرتے ہیں ہیں ،کراچی کے اضلاع میں قائم 06 قانونی ہائیڈرنٹس کے قیام کی اصل وجہ شہر کے جس ضلع میں قلت آب کی کمی ہوتو شکایت ملنے پر فوری طورپر مزکورہ ضلع میں قائم ہائیڈرنٹ کا عملہ اس بات کا پابند ہو گا کہ پہلے کمپلین والے علاقوں میں پانی کی سپلائی کو پورا کیا جائے گا، اس کے بعد کمرشل واٹر ٹینکرز کی بھرائی واٹر بورڈ کے ٹائم ٹیبل کے مطابق کی جائے مگر ان 6 اضلاع میں قائم ہائیڈنٹس میں واٹر بورڈ کے قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جارہی ہے ، ہاہیڈرنٹس کے ٹھیکیداوں کی جانب سے منیجزراور منشیوں کو پابند کیا جاتا ہے کہ کمپلین پر چلنے والے واٹر ٹینکرز کی پانی بھرائی کمرشل ٹینکرز والے بھرائی کے والوں سے ہرگز نہ کی جائی ، کمپلین والے ٹینکرز کی پانی بھرائی کے لئے ہائیڈرنٹ ملکان نے تین انچ والے وال لگا رکھے ہیں ، جبکہ کمرشل واٹر ٹینکرز کے لئے ہائیڈرنٹ کے مالکان نے 6 انچ والے تین سے چار والوں کو استعمال میں لیا ہوا ہے جن کے زریعے کمرشل واٹر ٹینکرز میں پانی کی بھرائی 24 گھنٹے کی جاتی ہے ،جبکہ کمپلین پر چلنے والے واٹر ٹینکرز کے لئے لگائے گئے وال بھی کم سے کم کھولے جاتے ہیں ، تاکہ ٹینکرز کو بھرنے میں زیارہ وقت لگے ، جبکہ واٹر اینڈ سوریج بورڈ کے قوائد کے مطابق کمپلین پر چلنے والے واٹر ٹینکرز کو بغیر نمبر اور بناءکسی روکاوٹ کے ہائیڈرنٹ پر پہلے پانی کی بھرائی کی جائے ، لیکن ہائیڈرنٹس کے ٹھکیداروں نے جس قوائدوضوبطہ کے تحت ہائیڈرنٹس کے ٹھیکےلئے ہیںان کی مکمل خلاف ورزی کراچی کے 06 ہائیڈرنٹس پر کی جا رہی ہے ، 24 گھنٹوں میں جس ٹائم پرہائیڈرنٹس کو بند رکھنے کے احکامات دیے گئے ہیں ان اوقات میں بھی کمپلین کی آڑ میں کمرشل واٹر ٹینکرز میں پانی کی بھرائی کی جاتی ہے ، جبکہ کمپلین پر چلنے والے واٹر ٹینکرز کوالگ لائنوں میں کھڑا کر کے گھنٹوں گھنٹوں انتظار کروایا جاتا ہے ، زرائع سے معلوم ہوا ہے کہ واٹر اینڈ سوریج بورڈ کی جانب سے ہائیڈرنٹس پر کمرشل واٹر ٹینکرز کے مقر ر کردہ گیلن کے نرخوں سے زائد نرخ وصول کئے جاتے ہیں ،ہائیڈرنٹس پر 1200 سوگیلن پانی کی بھرائی 800 سوروپے لئے جاتے ہے ، 3000 ہزار گیلن پانی کی بھرائی 2000 ہزار روپے 5000ہزار گیلن کے 3000 ہزارروپے 6000 ہزار گیلن کی بھرائی3500 سو روپے جبکہ 12000 ہزار گیلن والے واٹر ٹینکرز جن کی پانی کی بھرائی ممنوع ہونے کے باوجود بھی ہائیڈرنٹس پر پانی کی بھرائی کے 7000 ہرازروپے وصول کئے جاتے ہیں ،واٹر ٹینکرز ملکان مزکورہ واٹر ٹینکرز جن میں 1200 سوگیلن والے واٹر ٹینکرزشامل ہیں 2500 سو روپے میںشہریوں کو فروخت کرتے ہیں ، 3000 ہزار گیلن پانی 5500 سو روپے 5000 ہزار گیلن پانی 7000 ہزار روپے میں جبکہ 12000 ہزار گیلن واٹر ٹینکرز کو شہر میں ساڑے دس ہزار روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے ، ہائیڈرنٹس سے وابستہ زرائع نے دعوی کیا ہے کہ ہائیڈرنٹس پر باقائدگی سے بھتہ دیا جاتا ہے اور کئی واٹر ٹینکرز کے ملکان کی منشیوں کے ساتھ سیٹنگ ہوتی ہے ، بھتے کی عوض واٹر ٹینکرز کو لمبی قطاروں میںاپنے نمبر کا انتظار نہی کر نا پڑ تاہے ، جو بغیر نمبر کے ہائیڈرنٹس سے پانی بھر کرشہر کے مختلف علاقوں میں فروخت کرتے ہیںاور شہریوں سے من مانی قیمتیں وصول کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ زرائع کا کہنا ہے کہ ان تمام کاموں کے علاوہ بھی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے بعض اعلی افسران مختلف زرائع سے بھاری رشوت حاصل کر رہے ہیں ، زرائع کا مزید کہنا ہے کہ اس بار جو قانونی واٹر ہائڈرینٹس کی نیلامی کی گئی ہے اس میں بھی قوائد و ضوابط کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں اور اپنے من پسند افراد کو ٹھیکے دئیے گئے ہیں ، اس بار جو ٹینڈر کھولا گیا ہے اس کی شرائط میں شامل تھا کہ صرف وہی بڈر (ٹھیکیدار) اس ٹینڈر کا اہل ہوگا جس کے پاس اپنے 2006ماڈل کے تیس ٹینکرز ہونگے مگر اس شرائط کی بھی اس نیلامی میں دھجیاں اڑائی گئی ہیں اور جن افراد کو واٹر ئایڈرینٹس کا ٹھیکہ دیا گیا ہے ان میں سے صرف ایک یا دو افراد ہی اس شرط پر پورا اترتے ہیں باقی تمام بڈر اس شرائط پر پورا نہی اترتے ہیں مگر پھر بھی ان کو ٹھیکہ جاری کیا گیا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ایک شرط یہ بھی تھی کہ 5ہزار گیلن سے زائد گنجائش رکھنے والے ٹینکرز کو ہائڈرینٹس سے پانی فراہم نہی کیا جائے گا مگر اسسٹنٹ کنٹرولر ہائڈرینٹ انچارج شکیل قریشی اور ہائڈرینٹ سپریٹینڈنٹ نثار مگسی کی سرپرستی میں 10سے 12ہزار گیلن والے دیوہیکل ٹینکروں کو بھی واٹر ہائڈرینٹس سے پانی سپلائی کیا جارہا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ ایک شرط یہ بھی تھی کہ ہر بڈر تین ماہ کی فیس ایڈوانس جمع کروائے گا مگر ایسا بھی کچھ نہی کیا گیا اور زرائع کا کہنا ہے کہ ڈپٹی مینیجنگ ڈائریکٹر ٹیکنیکل سروس اسد اللہ خان اور چھ سے آٹھ رکنی ٹینڈر کمیٹی نے اپنے من پسند افراد کو بغیر کاغزات کی چھان بین کئے ٹینڈر الاٹ کئے ہیں اگر اس کی انکوائیری کروائی جائے تو تمام حقیقت سامنے آجائے گی ، اس کے ساتھ ساتھ ڈی ایم ڈی اسد اللہ خان نے اس ٹینڈر میں سیپرا رول کی بھی کھل کھلا خلاف ورزیاں کی ہیں اورسیپرا رول کے قطعی برعکث اقدامات کئے ہیں ، جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ٹینڈر کی ٹیکنیکل بڈ جو 90دن کے اندر اندرتمام ٹینڈر شرکاءکی موجودگی میں کھولی جاتی ہے وہ ٹینڈر بڈ ڈی ایم ڈی اسد اللہ خان نے 8ماہ بعد کھولی اور اپنے من پسند 7افراد کے علاوہ کسی بھی ٹینڈر ڈالنے والے بڈر کو آگاہ کرنا تک گوارہ نہی کیا ، سیپرا رول کے مطابق جو بڈ 90روز کے اندر نہی کھولی جاتی ہے وہ 90دن گزرنے کے بعد ناکارہ ہو جاتی ہے مگر یہاں بڈ 8ماہ بعد کھولی گئی ، اس کے ساتھ ساتھ رول کے مطابق ناکام ہونے والے بڈر یا ٹھیکیدار کو اپیل کا حق بھی دیا جاتا ہے مگر اس بار ایسا بھی کچھ نہی کیا گیا ہے ، اور جن لوگوں نے اپیل کی بھی ہے ان کی اپیل پر کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں نہی لائی گئی ، اس کے ساتھ ساتھ اس بار ہونے والے ٹینڈر میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی بھی حکم عدولی کی گئی ہے اور سپریم کورٹ کی جانب سے واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو جاری ہدایت میں کہا گیا تھا کہ اس بار ٹینڈر کا عمل شفاف ہونا چاہیئے اور اس میں ایک عدالتی نمائندے کو بھی شامل کیا جائے مگر اس بار کھولے جانے والے ٹینڈر میں ایسا بھی کچھ نہی کیا گیاہے اور صرف اپنے من پسند افراد کو نوازا گیا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ چھ واٹر ہائڈرینٹس کو واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی جانب سے قانونی قرار دیا گیا ہے ان میں بھی قوائد و ضوابط کی کھلی خلاف ورزی کی جا رہی ہے اور ACواٹر ہائڈرینٹس شکیل قریشی اور ہائڈرینٹس سپریٹینڈنٹ نثار مگسی کی مکمل سرپرستی میں 18گھنٹے چلائے جانے والے ہائڈرینٹس کو 24گھنٹے چلایا جا رہا ہے اور عوام کا پانی چوری کرکے عوام کو ہی مہنگے داموں فروخت کیا جارہا ہے ، اس حوالےسے بات کرتے ہوئے لانڈھی کے رہائشیوں واحد خان ، بشیر، کامران ، عبدالقدوس ، عبدالرشید ، خورشید ، وسیم ، اور ریاض کا کہنا تھا کہ لانڈھی نمبر 01 معین آباد اور محمد نگر میں قائم واٹر ہائیڈرنٹ پر واٹر بورڈ کے قوائد و ضوابط کی واٹر بورڈ عملے کی ملی بھگت سےخلاف ورزی کی جارہی ہے، علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ ہزاروں گھروں کے درمیان قائم واٹر ہائیڈرنٹ سے علاقہ مکین شدید ازیتمیں مبتلاءہیں ،اور واٹر بورڈ کے وال مین معراج اور انچارج ضیاءکی تمام تر ہمدردیاں لانڈھی نمبر 1کا واٹر ہائڈرینٹ چلانے والے افراد کے ساتھ ہیں ، واحد خان کا کہنا تھا کہ وال مین علاقے کی لائنوں کے وال بند کرکے ہائیڈرنٹ کو پانی سپلائی کر دیتا ہے جس کے باعث اطراف کی آبادی میں پانی کا شدید بحرانپیدا ہو گیا ہے، اہل علاقہ کا مزید کہنا تھا کہ کورنگی کے واٹر ہائیڈرنٹ کو ملیر میں قائم کیا ہوا ہے، ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ ہائیڈرنٹ کے قیام سے قبل قیوم کالونی، مانسہرہ، محمد نگر، اسماعیل گوٹھ، شرافی گوٹھ، لانڈھی 89 سے لانڈھی 06 تک پینے کے پانی کا بحران نہیں تھا اور تمام آبادیوں کو مقرر کردہ وقت پر صاف پانی مل جاتا تھا ، مگر واٹر بورڈ اور ہائیڈرنٹ چلانے والوں کی ملی بھگتکے باعث ان علاقوں میں مقیم افراد کے لئے پانی ناپید ہو گیا ہے اور پانی کا بہران شدت اختیار کر چکا ہے اس کے ساتھ ساتھ ہماری کسی بھی ادارے یا محکمے میں کوئی شنوائی نہی ہو رہی ہے ، انہوں نے بتایا کہ چند روز قبل ہائیڈرنٹ کی ہیوی موٹروں کی وجہ سے واٹر پمپ کی مین بجلیکی تار بھی جل گئی تھی جس کی وجہ سے دو روز تکہمارے علاقے میں ایک بوند پانی بھی ہمیں میسر نہی تھا ، کیبل جلنے کی اصل وجہ 60 ایمپیئر کی ہیوی موٹروں کا واٹر ہائیڈرنٹ میں 24 گھنٹے چلنا ہے جو واٹر پمپنگ اسٹیشن کی بجلی سے چلائی جاتی ہے ،جس کے لئے بجی کا تار پمپنگ اسٹیشن سے واٹر ہائڈرینٹ کا فراہم کیا گیا ہے اور واٹر پمپ کی سرکاری بجلی سے ہائیڈرنٹ کو بجلی دی گئی ہے جس کا بل واٹر بورڈ ادا کرتا ہے، علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ واٹر پمپکی سرکاری اراضی پر واٹر ہائیڈرنٹ چلانے والے افراد نے قبضہ کرکے 200 گز سے زائد جگہ پر غیر قانونی کمرے بنا کر چار دیواری قائم کی تھی واٹربورڈ کے عملے نے منہدم کر دیا تھا، لیکن بعدمیں بھاری رشوت کے عوض واٹر بورڈ کے بعض افسران نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور قبضہ مافیا نے واٹر بورڈ کی 200گز زمین پر تسلط قائم کر لیا،سابقہ کونسلر عبدالقدوس کا کہنا تھا کہ مذکورہ ہائیڈرنٹ کے خلاف متعدد بار ہم احتجاج اور مظاہرے بھی کرچکے ہیں، لیکن ہماری کہیں کوئی شنوائی نہی ہو رہی ہے ،، ان کا کہنا تھا کہواٹر ہائڈرینٹ والے 3 والوں کی جگہ ایک ساتھ 5 والوں سے واٹر ٹینکرز بھرتے ہیںاور 8 انچ پائپ سے 6 انچ والے 3 وال جبکہ 4 انچ کے 2 والوں کا استعمال کیا جارہا ہے انہوں نے، چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان اور ایم ڈی واٹر بورڈ سے اپیلکی ہے کہ ہماری آبادی میں قائم اس واٹرہائیڈرنٹ کو فوری بند کیا جائے، تاکہ ہمیں بھی کچھ پانی میسر آسکے اور ہم اس زہنی کرب سے نجات پا سکیں ،اس خبر کے حوالے سے موقف لینے کے لئے واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے پی آر او رضوان حیدر سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ مجھے ان تمام باتوں کے بارے میں کوئی علم نہی ہے اور مجھے ان تمام باتوں کے متعلق معلوم کرنا پڑے گا جس کے بعد ہی میں آپ کو کوئی موقف دے سکتا ہوں اور اس میں مجھے کچھ دن لگ سکتے ہیں جب تک آپ لوگ انتظار کیجیئے ۔

About BLI News 3239 Articles
Multilingual news provider for print & Electronic Media. Interviews, Exclusive Stories, Analysis, Features, Press Conferences Photo & Video Coverage and Economic Reviews, Pakistan and Worldwide. Opinions, Documentaries & broadcast.