ایک سوئس مالیاتی ادارے کے مطابق منی لانڈرنگ کے خدشات والے ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 46 واں نمبر ہے۔ سوئٹزرلینڈ کے ادارے دی باسل انسٹیٹیوٹ آف گورننس نے اپنی رپورٹ گزشتہ ماہ جاری کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق منی لانڈرنگ میں دس ملک سب سے زیادہ ملوث ہیں، ان میں ایران، افغانستان، گنی بساؤ، تاجکستان، لاؤس، موزنبیق، مالی، یوگنڈا، کمبوڈیا اور تنزانیہ شامل ہیں جب کہ فن لینڈ، لتھوانیا اور ایسٹونیا تین ایسے ملک ہیں جہاں منی لانڈرنگ کے خدشات سب سے کم ہیں۔ سب سے زیادہ بہتری سوڈان، تائیوان، اسرائیل اور بنگلہ دیش میں آئی ہے جب کہ سب سے زیادہ خرابی جمیکا، تیونس، ہنگری، ازبکستان اور پیرو میں ظاہر کی گئی ہے۔ اس سوئس رپورٹ کے مطابق منی لانڈرنگ پر قابو پانے میں بنگلہ دیش نے گزشتہ ایک سال میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔
اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں صورتحال خاصی بہتر ہے اور وطن عزیز ان ممالک میں شامل نہیں ہے جہاں منی لانڈرنگ جیسے وائٹ کالر جرائم کے خطرات بہت زیادہ ہیں۔ بہرحال پاکستان کو دہشت گردی کے جن خطرات کا سامنا ہے، اس کا تقاضا یہی ہے کہ مالیاتی جرائم اور سائبر کرائم پر قابو پانے کے لیے مزید موثر اقدامات کیے جائیں۔
سیدھی بات ہے کہ اگر دہشت گرد یا جرائم پیشہ گروہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں تو انھیں کہیں نہ کہیں سے مالی سہولت مل رہی ہے۔ اگر دہشت گرد گروہوں کی مالیاتی لائف لائن کاٹ دی جائے تو یہ گروپ اپنی موت آپ مر جائیں گے۔ گو پاکستان اس وقت منی لانڈرنگ کے سدباب کے لیے خاطرخواہ اقدامات کر رہا ہے لیکن ابھی اسے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔