وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ حکومت سوشل میڈیا پر پابندی لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن مادرپدر آزاد سوشل میڈیا بھی کسی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔
منگل کے روز پنجاب ہاؤس میں میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ گذشتہ چند روز سے فوج کے خلاف تضحیک آمیز مواد سوشل میڈیا پر شائع کیا جارہا تھا جس کی تحقیقات کے لیے ایف آئی اے کے حکام کو ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
اُنھوں نے کہا کہ ایف آئی اے کے حکام نے28 ایسے اکاؤنٹس کا سراغ لگایا جنہوں نے فوج کے خلاف تضحیک آمیز مواد شائع کیا تھا۔
چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ ان اکاؤنٹس سے متعلق ایسے افراد کو محض پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا گیا تھا جبکہ ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی لیکن اس پر شور شرابہ شروع ہو گیا۔
اُنھوں نے کسی بھی سیاست دان کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ ’سوثل میڈیا کے مامے چاچے بننے کی کوشش نہ کریں۔‘
واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سوشل میڈیا پر پاندی لگنے کی صورت میں سڑکوں پر احتجاج کرنے کی دھمکی دی تھی۔
وزیر داخلہ کا کہنا ہے جب سے ایف آئی اے نے ایسے افراد کو پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا ہے اس کے بعد سے فوج کے خلاف تضحیک آمیز مواد سوشل میڈیا سے غائب ہوگیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اس سے پہلے توہین مذہب سے متعلق جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کریک ڈاؤن شروع کیا تھا تو اس کے بعد سے مقدس ہستیوں کے خلاف تضحیک آمیز مواد بلکل ختم ہو گیا تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ ملکی آئین کے تحت عدلیہ اور فوج کو کسی بھی صورت میں تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔
چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو ایف آئی اے نے پوچھ گچھ کے لیے بلایا تھا تو اُنھیں اپنا وکیل ساتھ لانے کو بھی کہا گیا تھا اور کسی بھی فرد کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کیا گیا۔
اُنھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کو ایک طریقۂ کار کے تحت چلنا ہوگا۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ حکومت کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ اس ضمن میں پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیکر اور ان کی رائے کو شامل کرکے سوشل میڈیا سے متعلق کوئی پالیسی بنائے۔
چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر قابل اعتراض مواد شائع کرنے والے افراد کا تو پتہ چلایا جا سکتا ہے لیکن بیرون ممالک سے ایسا کرنے والے افراد کے بارے میں معلومات سروس فراہم کرنے والے ادارے ہی دے سکتے ہیں۔
دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کے حکام کو صحافی طحہٰ صدیقی کو ہراساں کرنے سے روک دیا ہے۔
طحہٰ صدیقی ان افراد میں شامل تھے جنہیں ایف آئی اے کے حکام نے فوج کے خلاف تضحیک آمیز مواد سوشل میڈیا پر شائع کرنے سے متعلق پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا تھا مگر وہ ایف آئی اے کے حکام کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔