کراچی کی ایک پہچان ’’چائے خانے‘‘بھی ہیں جوکوئٹہ وال کے مختلف ناموں سے مشہور ہیں تاہم کوروناوائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے باعث ہوٹلوں میں کام کرنے والے ملازمین کی اکثریت اپنے آبائی علاقوں میںچلی گئی ہے جبکہ جو افراد شہرمیں موجود ہیں وہ متبادل روزگارکی تلاش میں سرگرداںہیں،ہوٹلوں پرکام کرنے والے میں سے اکثرنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے سبزی، پھل فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ مزدوری کاکام بھی شروع کردیاہے۔
لاک ڈاؤن کے سبب جو افراداپنے آبائی علاقوں میں موجود ہیں وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ کب کراچی میں کاروبار کھلے گا؟کب ان کی روزی بحال ہوگی؟سب کاروبارکی بحالی کے لیے دعاگوہیں، ہوٹل کے مالک وزیرخان نے بتایاکہ کراچی میںچائے کے زیادہ ترہوٹلوں کے مالک کوئٹہ وال پشتون ہیں اوران کاتعلق کوئٹہ پشین اور بلوچستان کے دیگرعلاقوں سے ہے۔
چائے کے ہوٹلوں پر زیادہ تر پختون، پشتون ، کشمیری ، سرائیکی اور دیگر قومیتوں کے لوگ کام کرتے ہیں،زیادہ ترہوٹل کرایے کی دکانوں میں ہیں جن کاکم سے کم کرایہ 30ہزار یا اس سے زیادہ ہے ،چائے کے ہوٹل مارکیٹ یا عوامی مقام کے قریب ہوتے ہیں اس لیے ان کاکرایہ زیادہ ہوتا ہے۔
لاک ڈاؤن سے کراچی میں چائے کے 95فیصد ہوٹل ڈیڑھ ماہ سے بند پڑے ہیں اور80فیصد عملہ آبائی علاقوں میں چلا گیا ہے اور جو20 فیصد ملازمین اس وقت شہر میں موجود ہیں وہ پھل،سبزی بیچ کراور مزدوری کرکے کچھ رقم جمع کررہے ہیں تاکہ اپنے آبائی علاقوں میں واپس چلے جائیں۔
ہوٹل بند ہونے سے گھریلوخواتین کاکام بڑھ گیاہے
وزیرخان کاکہنا تھاکہ بزرگ، نوجوان اور مرد رات کے وقت ہوٹلوں پربیٹھ کرچائے پیتے اورگپ شپ کرتے ہیں مگر لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہوٹل بند ہیں ، لوگوں کوسحری میں پراٹھے نہیں مل رہے ہیں اورہوٹل بند ہونے سے گھریلو خواتین پر کام کا اضافی بوجھ پڑگیا ہے، حکومت رات کے اوقات میں ہوٹل کوپارسل چائے فروخت کرنے کی اجازت دے ، انھوں نے انکشاف کرتے ہوئے بتایاکہ کچھ علاقوں میں خاموشی سے پارسل چائے فروخت ہورہی ہے لیکن ان ہوٹلوں کی تعداد بہت کم ہے۔اچانک ہوٹل بند ہونے سے ہماری رقم پھنس گئی۔
’’باہر والا ‘‘ہوٹل کا اہم ملازم ہوتاہے جوکمیشن پرکام کرتاہے
وزیر خان نے بتایاکہ باہر والا ہوٹل کا اہم ملازم ہوتا ہے جو دکانوں اورمارکیٹوں میں چائے پارسل لے کر جاتا ہے اس کی تنخواہ نہیں ہوتی اس کو 100 روپے پر 20روپے کمیشن دیاجاتاہے ، ہوٹلوں سے تقریبا ڈیڑھ لاکھ سے زائد افرادوابستہ ہیں اوران کی فی کس آمدنی ماہانہ 15سے30ہزار کے درمیان ہے اب یہ تمام لوگ کاروباربحال ہونے کے منتظر ہیں۔
ہوٹلوں میں سارا نظام ہفتہ وارادھار پر چلتا ہے
ہوٹلوں میں زیادہ تر دو شفٹوں میں کام ہوتا اورسارا نظام ہفتہ وارادھار پرچلتا ہے ،آٹا ،میدہ ،دودھ ، پتی اور چینی ہفتے کے حساب سے منگوائی جاتی ہے اورہفتے کے ہفتے دکاندارکاحساب کیاجاتاہے،چائے اور پراٹھے بنانے والے کی روزانہ اجرت ایک ہزار روپے ،ٹیبل مین اور صفائی والے کی 500 سے 600 روپے ہوتی ہے جبکہ زیادہ تر ملازمین ماہانہ تنخواہ لیتے ہیں۔
15ہزارچائے کے ہوٹل ہیں ،ایک ہوٹل پر 10 ملازم بھی کام کرتے ہیں
اندازے کے مطابق شہرمیں 15ہزار چائے کے ہوٹل ہیں اورایک ہوٹل پر10سے زیادہ ملازم کام کرتے ہیں جن میںچائے ، پراٹھے بنانے والے،ٹیبل لگانے والے برتن دھونے والے اور کاؤنٹر سنبھالنے والے افراد شامل ہوتے ہیں، ہر ہوٹل میں کام اورآمدنی کے تناسب سے عملہ ہوتا ہے یہ عملہ اجتماعی طور پر کرایے کے مکان یا ہوٹل میں رہائش کی سہولت کے مطابق رہتا ہے ۔