اسلام آباد: قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے شور شرابے اور احتجاج کے باوجود الیکشن ریفارمز بل 2017 منظور کرلیا گیا ہے۔
انتخابات بل 2017 کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیرصدارت ہوا جس میں وزیرقانون زاہد حامد نے الیکشن بل 2017 منظوری کے لئے پیش کیا۔ قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ اور تحریک انصاف کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے بل کی مخالفت کی تاہم اپوزیشن کے شور شرابے اور احتجاج کے باوجود الیکشن ریفارمز بل 2017 منظور کرلیا گیا۔ اس موقع پر حزب اختلاف کے ارکان نے بل کے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اور اسپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ کرلیا۔
قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے الیکشن ریفارمز بل 2017 کے متن کے مطابق کسی بھی رکن پارلیمنٹ کو 5 سال سے زائد مدت کے لئے نااہل نہیں کیا جاسکے گا جب کہ صدر مملکت کو عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے لیے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا پابند بنا دیا گیا ہے اور مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں کرانا لازم ہوں گی۔
متن کے مطابق الیکشن کمیشن کو انتخابات میں عدلیہ سے ریٹرننگ افسران لینے کا اختیار ہو گا، الیکشن کمیشن کے پاس ہائی کورٹ کے مساوی اختیارات ہوں گے اور غفلت برتنے پر انتخابی عملے کے خلاف براہ راست کاروائی کی جا سکے گی جب کہ الیکشن ٹریبونلز ریٹائرڈ کی بجائے ہائی کورٹ کے حاضر سروس ججوں پر مشتمل ہوں گے۔ الیکشن کمیشن سالانہ کارکردگی رپورٹ حکومت کو پیش کرنے کا پابند ہوگا جو پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں پیش کی جائے گی جب کہ سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے ایک ہی کاغذات نامزدگی ہو گا۔
الیکشن ریفارمز بل میں الیکشن کمیشن کا کاغذات نامزدگی میں تبدیلیوں کا اختیار ختم کر دیا گیا ہے اور امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کو الیکشن قانون کا حصہ بنا دیا گیا ہے، اضافی بیلٹ پیپرز چھاپنے کا ریٹرننگ افسر کا صوابدیدی اختیار ختم کر دیا گیا ہے، امیدواروں کو انتخابی مہم کے لیے 21 کی بجائے 28 روز مل جائیں گے اور امیدواروں کو تصاویر والی انتخابی فہرستیں فراہم کی جائیں گی، انتخابات میں خواتین اور مرد ووٹروں کی الگ الگ گنتی ہو گی، بیلٹ پیپرز کی تصویر بنانے کا ووٹ دکھانے پر بھی 2 سال جیل یا 1 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگا، الیکشن کمیشن تمام حلقوں کے انتخابی نتائج ویب سائیٹ پر جاری کرنے کا پابند ہو گا۔
متن کے مطابق ہر سیاسی جماعت کے لئے 5 سال میں انٹرا پارٹی انتخابات کرانا لازم ہوں گے، الیکشن کمیشن کو ارکان پارلیمنٹ کے اثاثوں کی جانچ پڑتال کرنے کا اختیار ہو گا جب کہ غلط اثاثے ظاہر کرنے پر رکن پارلیمنٹ کو جیل کی ہوا بھی کھانی پڑے گی۔
اس سے قبل قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ انتخابی اصلاحات کے بل میں ترمیم آئین کی روح کے منافی اور متصادم ہے کیوں کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ نواز شریف آئین کے آرٹیکل 62 اور63 پرپورا نہیں اترتے، ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت کلاز 203 پرنظر ثانی کرے اور اسے انتخابابی اصلاحات بل سے نکالے۔
واضح رہے الیکشن بل کی منظوری کے ساتھ ہی نوازشریف کی بطور پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ یہ بل اس سے قبل سینیٹ سے منظور ہوچکا ہے۔ دونوں ایوان سے منظوری کے بعد بل کو ایوان صدر ارسال کیا جائے گا اور صدر مملکت کے دستخط کے بعد انتخابات بل 2017 قانون بن جائے گا۔