اسلام آباد(بی ایل آ ئی)پاکستان کے بڑے شہروں میں ٹریفک اور اسٹریٹ کرائمز تو ہیں ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ قواعد و ضوابط سے ہٹ کر ہونے والی تعمیرات بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے‘ لاہور میں گزشتہ روز قواعد و ضوابط کے خلاف تعمیر ہونے والے 10شادی ہال اور 11رہائشی عمارتیں سربمہر کی گئیں‘ یہ تو ایک شہر میں حکومتی ادارے کا معمولی سا اقدام ہے‘ پاکستان کے ہر شہر میں غیر قانونی تعمیرات کا جنگل اگا ہوا ہے۔
کراچی میں تو غیر قانونی تعمیرات نے شہر کا حلیہ بگاڑ رکھا ہے‘ کراچی شہر جن مسائل سے دوچار ہے‘ اس میں غیرقانونی تعمیرات کا بڑا حصہ ہے‘ غور کیا جائے تو غیر قانونی تعمیرات کے پس پردہ حکومتی ادارے ہی نظر آتے ہیں‘ اگر حکومتی ادارے درست کام کریں تو غیرقانونی تعمیرات ممکن ہی نہیں ہوتیں۔ ملک کے کسی بھی بڑے شہر میں چلے جائیں‘ فٹ پاتھوں پر غیرقانونی تجاوزات نظر آئیں گی‘ رہائشی اسکیموں میں بلڈنگ لاز کا خیال نہیں رکھا جا رہا‘ گھروں کے باہر بڑے بڑے تھڑے بنائے گئے ہیں‘ گرین بیلٹس کو تباہ کر دیا گیا ہے لیکن سرکاری اداروں کے اہلکار سب کچھ دیکھنے کے باوجود چپ رہتے ہیں۔اصل مسئلہ سرکاری اداروں کے احتساب کا ہے۔
اگر سرکاری ادارے کے افسروں اور اہلکاروں کا احتساب ہو تو کسی بھی شہر میں ناجائز تعمیرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔سرکاری ادارے کارروائی ڈالنے کے تجاوزات گراتے ہیں حالانکہ تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کی روک تھام کے لیے جو ادارے قائم ہیں، ان کے افسروں اور اہلکاروں کی ڈیوٹی روزانہ کی بنیاد پر ہے، ایسا نہیں کہ ایک دو برسوں میں چند عمارتیںسیل یا چند تھڑے توڑ کر یہ تاثر دیا جائے کہ غیر قانونی تعمیرات کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔