فیس بک صرف سوشلائزیشن کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ لوگوں کی رائے بدلنے ، مارکیٹنگ کرنے اور انکم کا بھی پلیٹ فارم ہے۔ سیاسی بنیادوں پر استعمال کرنے اور امریکی صدر ٹرمپ کو سیاسی فائدہ پہنچانے پر پچھلے دنوں امریکی سینیٹرز نے فیس بک کے مالک مارک زکربرگ کو بھی کٹہرے میں کھڑا کردیا تھا۔بہرحال ہم بات کررہے ہیں فیس بک پلیٹ فارم کی جو خاص طور پر ان لوگوں کیلئے بہت کفایتی ہے جو مارکیٹنگ اور ایڈورٹائزنگ کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے ۔مناسب آگاہی نہ ہونے کے سبب پاکستان کی صرف خواتین ہی نہیں مرد حضرات بھی اس پلیٹ فارم کوعمدگی سے استعمال کرنے میں کسی حد تک پیچھے ہیں ۔ اب چونکہ یہ ویمن امپاورمنٹ کا زمانہ ہے تو فیس بک ٹیم نے بھی ارادہ کیا کہ پاکستانی خواتین کو فیس بک کو تجارتی سطح پر استعمال کرنے کی تربیت دی جائے ۔اس سے پہلے فیس بک ٹیم ویمن ڈیجیٹیل لیگ کی خدمات حاصل کرچکی تھی۔
اس سلسلے میں ہم نے ویمن ڈیجیٹل ٹیم کی روح رواں ماریہ عمر سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ آئندہ چند ماہ میں فیس بک کی ٹیم پاکستان آئے گی اور پاکستانی خواتین کی تربیت کرے گی کہ وہ کس طرح اس میڈیا کو اپنے کاروبار کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ قبل ازیں فیس بک کی ٹیم نان پروفٹ ایبل ادارے ویمن ڈیجیٹل لیگ کو سنگا پور بلا کر ٹریننگ دے چکی تھی اور اس کے بعد پورے ملک میں ویمن ڈیجیٹل ٹیم نے پاکستانی خواتین کی تربیت کا بیڑہ اٹھایا جس کی تعداد تین سے پانچ ہزار کے درمیان بنتی ہے۔
ایک خبر رساں ادارے نے جب اس ضمن میں ماریہ عمر سے رابطہ کیا تو انہوں نے لاہور کی تہمینہ چودھری کا بتایا جو گجومتہ کے علاقے میں مسالے کی ایک چھوٹی سی فیکٹری چلاتی ہیں جسے انھوں نے معمولی سی سرمایہ کاری سے 2011 میں انسٹا فوڈ کے نام سے شروع کیا۔ فیس بک پر ان کی کمپنی کا پیج توتھا لیکن اس پر بزنس کیسے پروموٹ کریں، اسکا کوئی اندازہ انہیں نہیںتھا۔ تہمینہ کا دعویٰ ہے کہ ان کا بنایا گیا سبز مرچ پاؤڈر برصغیر میں اور کہیں دستیاب نہیں لیکن جب تک وہ اس کی خصوصیات لوگوں کو سمجھائیں گی نہیں، ان کی مصنوعات کی انفرادیت قائم نہیں ہو سکے گی۔
جدید ٹیکنالوجی اور مارکیٹنگ کے نت نئے طریقوں سے ناواقفیت کے باعث پاکستان میں تہمینہ جیسی متعدد خواتین اپنی بنائی گئی اشیا کی صحیح طریقے سے تشہیر نہیں کر پاتیں۔ اس کی ایک اور بڑی وجہ سوشل میڈیا کا محدود استعمال اور تکنیکی سپورٹ کی کمی ہونا ہے ۔ پاکستانی خواتین کا ایک بڑا مسئلہ ہے کہ ان کو مارکیٹنگ کرنی نہیں آتی۔ ان کو اپنی مصنوعات، چاہے کتنی بھی اچھی ہوں، اسے بیچنا نہیں آتا۔ اس ٹریننگ کے ذریعے خواتین کو اشیا بیچنا سکھایا جائے گا۔ دوسری طرف پراڈکٹ ڈیویلپمنٹ کیا ہے۔ آج کل لوگوں کی کیا ضروریات ہیں اور ان کو کس طرح کی پراڈکٹس لانی چاہئیں تاکہ لوگوں کی مطلوبہ ضروریات پوری ہو سکیں۔
فیس بک کے شی بزنس پروگرام کے تحت اس کورس میں تین سطح کی ٹریننگ ہوں گی۔ پہلے مرحلے میں ان خواتین کی تربیت کی جائے گا جن کو فیس بک کی زیادہ معلومات نہیں، پھروہ خواتین جو پہلے سے ہی بزنس کی لیے فیس بک کا استعمال کر رہی ہیں اور آخر میں فیس بک کی ماہر کاروباری خواتین جن کو ایڈوانس لیول کی تربیت خود فیس بک کی ٹیم دے گی۔
اس سے قبل دنیا کے سب سے مشہور سرچ انجن چلانے والی ‘گوگل کمپنی کی جانب سے خواتین کو انٹرنیٹ کے نئے طریقوں سے متعارف کرنے کیلئے ایک کانفرنس منعقد کی جاچکی ہے جہاں چھوٹے پیمانے کا کاروبار کرنےوالی خواتین کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ انہوں نےوہاں اپنے تجربات پیش کئے اور کئی مفید مشورے بھی حاصل کئے۔اس کانفرنس میں شریک کامیاب بزنس ویمن کی بات کی گئی تو ان کا کہنا ہے کہ جہاں انھیں اپنے کاروبارکے فروغ میں کئی مسائل درپیش ہیں وہیں سوشل میڈیا پیجز پر موجود لوگوں کو موجودہ ایپلی کیشن کے بارے میں بتانا پڑتا ہے۔
ان کاروباری خواتین میں سے زیادہ تر خواتین اپنے ذاتی کاروبار سے وابستہ ہیں جنھوں نے چھوٹے پیمانے پر اپنے کاروبار کا آغاز کیا اور اب اکثر خواتین آن لائن بزنس چلارہی ہیں۔نازش نے حال ہی میں اپنا ایک بیوٹی پارلر کھولا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بیوٹی پارلر میں ویسے تو کئی خواتین گاہک آرہی ہیں مگر جب سے انھوں نے اپنے اس بیوٹی پارلر کا ایک فیس بک پیج تخلیق کیا ہے، ان کی گاہکوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ یوں انہیں سوشل میڈیا پر اپنےبزنس کی پروموشن کا اچھا نتیجہ حاصل ہورہا ہے۔
ایک خاتون کا کہنا تھا کہ اگر کوئی فیس بک استعمال کررہا ہے تو وہ گوگل پیج سے واقف نہیں اور ایسے ہی کئی افراد ہیں جو انٹرنیٹ پر ہر ایپلی کیشن استعمال کرنا ضروری نہیں سمجھتے ہیں۔ ایسے میں ان کو دوسری ایپلی کیشن جوائن کرنے میں کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔فیس بک ٹوئٹر، گوگل، واٹس ایپ اور وائبر ایسی ایلپیکیشنز ہیں جن میں تمام پیجز کو ایک ساتھ لنک کرسکتے ہیں مگر ہر صارف کا ہر ایپلیکیشن پر ہونا ضروری نہیں لوگ اپنی مرضی سے ایپلی کیشن چنتے ہیں۔
اکثر خواتین اپنے کاروباری معاملات زیر بحث نہیں لاتی ہیں جس کیلئے ایسی آگاہی ورکشاپ اور کانفرنسز معاون ثابت ہوتی ہیں جب خواتین ایک ساتھ مل بیٹھ کر معاملات اور اپنے کاروباری مسائل زیر بحث لائیں تو کوئی شک نہیں کہ کاروباری خواتین کے مسائل کافی حد تک حل ہوسکتے ہیں