فریادی کی فریاد 

فریادی کی فریاد
تحریر تجمل حسین ہاشمی
کسی کے خیالات کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اُسکی صحبت اختیار کی جائے صحبت کی وجہ سے انسان کو دوسروں کے افقارکو سمجھنے اور سمجھانے میں آسانی کا معاملہ ہوتاہے بعد صحبتوں میں فریادی اپنے مرشد کا ہوکر رہ جاتا ہے ۔ ساری زندگی پیرومرشد کا دم بھرنے کا اقرار کرتا ہے لیکن حقیقت تو حقیقت ہے۔ مرشدوں سے ہمیشہ فریادی فریاد پاکر ہی واپس آتے ہیں فریاد کا تعلق کسی مالی معاملات سے نہیں بلکہ روحانی معاملات سے ہوتا ہے جب انسان کی روح پاکیزہ ہوتی ہے تو مالی اور باقی ماندہ تمام معاملات حل ہوتے چلے جاتے ہیں لیکن دنیاوی اصولوں پر مہیط زندگی میں کسی کو فریادی کہہ دیا جائے تو وہ اس لفظ کو اپنے لئے نامناسب سمجھتا ہے جیسا کہ مسلم لیگ (ن) نے فریادی کے لفظ کو سپریم ادارے کے سربراہ کے ساتھ نتھی کر دیا ہے حالانکہ تردید بھی کر دی گئی ہے کہ وزیر اعظم ہمارے لئے باعث افتخار ہے ۔ وزیر اعظم کی عزت ہمارے لے مقدم ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کو بھی سپریم کے اعلیٰ ججوں کی عزت کو مقدم رکھنا ہوگا چیف جسٹس کے الفاظات جو کہ اُنہوں نے ادا نہیں کئے اُس پر مسلم لیگ ن کا رسپونس تھا کہ یہ الفاظات قابل مزاحمت ہیں۔ لیکن حقیقت میں دیکھیں تو اُن کے وہ تمام الفاظات جو اُن کی لیڈرشپ اپنے جلسوں اور جلوسوں میں اعلیٰ اداروں کے متعلق دن رات ادا کر رہے ہیں کیا ان الفاظات سے مسلم لیگ (ن) قانونی جنگ جیت لے گی میاں صاحب قانونی اداروں کا تقدس ہی قانونی راستہ دے گا ورنہ قانونی جنگ جو کہ آپ لڑ رہے ہیں وہ بے سود ہوگی۔ میاں صاحب اللہ تعالیٰ نے بھی آپکو تین دفعہ ملک کے وزیراعظم سے نوازا ہے۔ لیکن آ پ نے کسی فریادی کی فریاد نہیں سنی فریادی آتے تھے لیکن وزیراعظم کی درو دیوار بہت بلند تھے جس کی وجہ سے اُن کی آوازیں آپ تک پہنچ نہیں سکیں۔ میاں صاحب PSHPکی رپورٹ کے مطابق 50ہزار لوگ ادویات کے غلط استعمال سے پاکستان میں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ 4 لاکھ سے زیادہ بچے زندگی کے پہلے سال میں ہی اللہ کو پیارے ہو جاتے ہیں۔ 11ستمبر 2012 ؁ء میں 289لوگوں کو فیکٹری میں زندہ جلا دیا گیا 600 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے ہزاروں کی تعداد میں جوانوں نے سیکیورٹی کی ادائیگی میں جانیں دیں ۔ بیشک آپ نے بجلی کے بہت پروجیکٹ لگائے لیکن پھر بھی بجلی کی کمی کے ہاتھوں عوام بے بس ہے۔ 2جون 2015 ؁ء میں 120 لوگوں نے اپنی جانوں سے اس گرمی کی وجہ سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن پھر بھی حکومت بے بس دکھائی دی۔ 9 مئی 1938 ؁ء میں کراچی میں گرمی کا درجہ حرارت48 سینٹی گریڈ ہوا تھا اُس دن سے لیکر آج تک محکمہ موسمیات نے اپنے ادارے کی کوئی امپروومنٹ نہیں کی پیشن گوئی بارش کی ہوتی ہے لیکن لوگوں کو گرمی کا سامنا ہوتا ہے ۔ میاں صاحب دیکھ لو یہ سب فریادی تھے۔ فریادیوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اگر فریادیوں کو فریاد جمہوریت میں حل نہیں ہوسکے تو پھر کس دور میں حل ہو گی چیف جسٹس آف پاکستان کے وہ تمام اقدمات اُس مرشد جیسے ہیں جو اپنے مرید کو فیض دیکر ہی واپس گھر بھیجتا ہے۔ اور اسکے بدلے میں مرید اپنے مرشد کا دم بھرتے ہیں دوسری طرف عمران خان صاحب کی جماعت 2018 ؁ء میں ہونے والے الیکشن کو اپنے لئے ایک اچھا معرکہ سمجھ رہی ہے لیکن گراؤنڈ حقیقت کو دیکھیں تو مختلف ہوگی۔ عامر لیاقت جیسے غیر مہذب آدمی پارٹی کا حصہ ہونگے تو ووٹ بینک بڑھنے کی بجائے کم ہوگا۔ جس آدمی کو کسی کی ماں بیٹی کی عزت کا تقدس نہیں وہ خان صاحب کی عزت کسی دن بھی داؤ پر لگا سکتا ہے۔ جمہوریت کا رہنا ملک کی بقاء ہے لیکن جمہوریت میں تہذیب کے ہونے سے پارٹیوں کی بقاء کی علامت ہے۔

About BLI News 3238 Articles
Multilingual news provider for print & Electronic Media. Interviews, Exclusive Stories, Analysis, Features, Press Conferences Photo & Video Coverage and Economic Reviews, Pakistan and Worldwide. Opinions, Documentaries & broadcast.