لاہور:پاکستان عوامی تحریک کی زیر قیادت ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ریاستی دہشت گردی کا بدترین واقعہ قرار دیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کو مستعفی ہونے کے لیے 7 جنوری تک کی مہلت دیدی ہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے ہمراہ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور قمر زمان کائرہ نے آل پارٹیز کانفرنس کا 10 نکاتی اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس کے اہم مطالبات یہ ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ تمام صوبائی اسمبلیاں اور سینیٹ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث ہونے پر شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے استعفوں کی قرارداد منظور کروائیں۔
ختم بنوت ﷺ کے حلف نامے میں تبدیلی اور قوانین کو ختم کرنا کروڑوں مسلمانوں کی اساس پر حملہ ہے، اس قانونی دہشت گردی میں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) براہ راست ملوث ہیں، ایمان کی بنیادی اساس پر حملے کے بعد (ن) لیگ اقتدار پر مسلط رہنے کا جواز کھو چکی ہے۔
شہدائے ماڈل ٹاؤن کے مظلوم ورثاء ساڑھے تین سال کی جدوجہد کے بعد صرف جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ حاصل کر پائے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کی موجودگی میں 17 جون 2017 کو شہید اور زخمی ہونے والوں کو انصاف کی فراہمی ناممکن ہے۔
اے پی سی مطالبہ کرتی ہے کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ میں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے لہذا یہ لوگ 7 جنوری سے پہلے مستعفی ہو جائیں۔
اگر یہ لوگ 7 جنوری تک مستعفی نہ ہوئے تو 8 جنوری کو اے پی سی کی اسٹیئرنگ کمیٹی آئندہ کے احتجاجی لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔
آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن اور قومی دولت لوٹنے والے شریف خاندان کو کسی قسم کا این آر او نہ دیا جائے اور اگر کوئی ماورائے قانون ریلیف دیا گیا تو قوم اسے ہرگز قبول نہیں کرے گی۔
قمر زمان کائرہ نے اس موقع پر اے پی سی کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے ممبران کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ اس کمیٹی میں پیپلز پارٹی سے قمر زمان کائرہ اور جسٹس آصف کھوسہ، تحریک انصاف سے شاہ محمود قریشی اور علیم خان، جماعت اسلامی سے لیاقت بلوچ اور پاک سرزمین پارٹی سے رضا ہارون شامل ہوں گے۔
میاں منظور وٹو، جہانگیر خان ترین اور خرم خان گنڈاپور اسٹیئرنگ کمیٹی کے کوآرڈینیٹر ہوں گے۔
اس موقع پر ڈاکٹر طاہر القادری نے اے پی سی میں شامل تمام جماعتوں کے اراکین سے قرارداد متفقہ طور پر منظور بھی کروائی۔
بعد ازاں صحافیوں کی جانب سے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کی اسٹیئرنگ کمیٹی کے ممبران میں شمولیت نہ ہونے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ ہم ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار کے مشکور ہیں کہ انہوں نے اے پی سی میں شرکت کی اور ان کا ہم سے کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن انہیں اپنی جماعت کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کرنا تھی جس کی وجہ سے وہ اجازت لے کر جلدی روانہ ہو گئے۔
شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے استعفوں کی ڈیڈ لائن میں اضافے سے متعلق پوچھے گئے سوال پر طاہر القادری نے کہا کہ 31 دسمبر کی ڈیڈ لائن صرف ہماری جانب سے تھی اور اس حوالے سے تمام تیاریاں بھی ہم نے کرنا تھیں لیکن اے پی سی میں تمام جماعتوں نے یہ طے کیا کہ انہیں اس حوالے سے تیاریوں کے لیے 7 روز چاہئیں۔
عوامی تحریک کی ماڈل ٹاؤن سیکرٹریٹ میں ہونے والی اے پی سی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، مسلم لیگ (ق)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان، پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) اور مجلس وحدت مسلمین سمیت اپوزیشن کی دیگر جماعتیں شرکت کررہی ہیں۔