عشرہ اردو شاعری کی ایک ایسی دس سطری صنف ہے جو پاکستان بھر کے نوجوان شاعروں میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہے، چنانچہ اس سلسلے میں گذشتہ ہفتے لاہور میں گجرات میں عشرہ گوئی کے مقابلے منعقد کیے گئے ہیں۔
خوش فکر شاعر ادریس شاعر نے تین سال قبل اس صنف کا آغاز کیا تھا جس کے بعد سے اسے تمام تر مخالفت کے باوجود پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔
اسی ضمن میں گذشتہ ہفتے لاہور اور گجرات کی یونیورسٹیوں میں عشرہ گوئی کے مقابلے منعقد ہوئے جن میں درجنوں شاعروں نے حصہ لیا۔
یونیورسٹی آف گجرات کے سالانہ مقابلوں میں ملک کے طول و عرض سے درجنوں ٹیمیں شریک ہوئیں، عشرے کی کیٹیگری میں سرگودھا یونیورسٹی کے محمد شناور خان اول قرار پائے، جبکہ مقابلے میں دور افتادہ علاقوں کے تعلیمی اداروں نے بھرپور شرکت کی۔
محمد شناور خان کا فاتح عشرہ ’آزادی‘
میرے دھرتی کے سارے لوگوں کو آزادی حاصل ہے
اخباروں کو لکھنے کی اور ٹی وی کو ساری خبریں دینے کی
منصف بھی اپنی آزادی رکھتا ہے
اور چھوٹا قیدی پنجرے کی درزوں سے باہر آ سکتا ہے
الٹی سیدھی رائے دینا سب کا بنیادی حق ہے
رشوت دینا لینا سب جائز ہے
مذہب کے نام پہ لوگوں کو مارا جا سکا ہے
مزدور کو جینے مرنے کی آزادی ہے
دہقان بھی بھوکا رہ سکتا ہے
میرے ملک میں ایسی آزادی ہے
یونیورسٹی کی قلم کار سوسائٹی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ان مقابلوں میں انچارج پروفیسر نعیم اللہ انمول نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ‘ہم نے پچھلے سال بھی عشرہ گوئی کا مقابلہ منعقد کروایا تھا لیکن اس سال اسے پہلے سے کہیں زیادہ پذیرائی ملی ہے۔’
انھوں نے کہا کہ عشرے کی اس قدر پذیرائی کی وجہ یہ ہے کہ اس میں بڑی آسانی اور اختصار کے ساتھ کسی بھی موضوع، واقعے یا سانحے پر اظہار کیا جا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نوجوان اسے پسند کر رہے ہیں۔’
انجینیئرنگ یونیورسٹی لاہور میں بھی یہ عشروں کے مقابلے کا دوسرا مسلسل سال تھا اور یہاں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، میر پور یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی نمایاں رہے۔
اس اہم مشن میں لٹریری سوسائٹی کو ناظم امور طلبہ ڈاکٹر آصف علی قیصر کی رہنمائی حاصل رہی۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ‘عشرہ اس قدر میچیور صنف بن گیا ہے کہ اس کے مقابلے منعقد ہو رہے ہیں اور یہ اس سطح تک آ گیا ہے کہ لوگ اسے سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔’
ان مقابلوں کا ایک اور دلچسپ پہلو طلبہ اور طالبات کی یکساں دلچسپی کے ساتھ ان کے منفرد صنفی کتھارسز میں دیکھنے کو ملا۔
روایتی رومانوی موضوعات سے ہٹ کر جہاں بیشتر طلبہ نے بیروزگاری اور بدعنوان کے موضوعات پر عشرے لکھے، وہیں طالبات کے لکھے ہوئے عشروں میں فیمینزم ابھر کر سامنے آیا۔
اسلام آباد، لاہور اور فیصل آباد جیسے بڑے شہروں کے علاوہ کوٹ ادو، جہلم اور میرپور جیسے قصبوں سے بھی نئی نسل کا ایک نئی صنفِ ادب میں دلچسپی لینا جہاں اس کی مقبولیت ظاہر کرتا ہے وہیں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نئی نسل غزل اور نظم کے پرانے سانچوں پر عدم اعتماد کے ساتھ اپنی رائے کے براہِ راست ابلاغ پر اصرار کر رہی ہے۔
یہ دعویٰ تو شاید قبل از وقت یو، تاہم اس میں شک نہیں کہ غیر روایتی انفرادی جمالیات کا یہ آمیزہ مختلف ذائقہ اور منفرد تاثیر رکھتا ہے۔