اسپیشل اتھلیٹس نے مختلف کھیلوں میں ملک و قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے 55 میڈلز جیتے

اسپیشل اولمپکس ورلڈ ونٹر گیمز
پاکستانی اسپیشل اتھلیٹس کی ناقابل فراموش کارکردگی
رپورٹ؛ امجد عزیز ملکاسپیشل اولمپکس پاکستان ایک ایسا ادارہ ہے جو ذہنی پسماندہ کھلاڑیوں میں کھیلوں کے ذریعے جینے کی ایک نئی امنگ، حوصلہ اور ولولہ پیدا کر رہا ہے۔اس ادارے کے قیام کو تین دہائیوں کے قریب عرصہ ہو گیا ہے اور اس دوران ملک بھر کے ذہنی پسماندہ کھلاڑیوں کو جس طرح سے زندگی کے قریب لاتے ہوئے انہیں عام لوگوں اور کھلاڑیوں کے ہم پلہ بنانے کی کوششیں کی گئیں وہ ملک میں کھیلوں کی تاریخ کا ایک سنہرا اور روشن باب ہے۔سال2015 میں امریکی ریاست لاس اینجلس میں منعقدہ سپیشل اولمپکس ورلڈ گیمز میں جب ان تو ملک بھر میں سپیشل اولمپکس پاکستان کا نام عام ہو گیا اور کھیلوں سے دل چسپی رکھنے والوں کو اپنے ملک کے ان سپیشل اتھلیٹس کی کارکردگی کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔جو سپیشل اولمپکس یا پھر سپیشل گیمز میں حصہ لینے والوں سے متعلق ابھی تک نہیں جان پائے تو ان کے لئے ضروری ہے وہ اس بارے میں جانیں کہ عام کھلاڑیوں کے بعد دنیا میں پیرالمپک گیمزکا انعقاد ہوا کرتا ہے جو عام اولمپکس کے فورا بعد اسی شہر میں منعقد ہوتے ہیں جہاں اولمپکس منعقد ہوئے۔ ان پیرالمپکس کھیلوں میں جسمانی طور پر معذور کھلاڑی شرکت کیا کرتے ہیں جبکہ سپیشل اولمپکس میں سرمائی اور گرمائی کھیلوں کا انعقاد ہر چار سال بعد ہوتا ہے یوں ہر دو سال بعد پہلے سرمائی اور پھر گرمائی کھیل منعقد ہوتے ہیں اور ان کھیلوں میں بظاہر ٹھیک نظر آنے والے لیکن حقیقت میں ذہنی پسماندہ کھلاڑی شریک ہوتے ہیں۔
گذشتہ دنوں پاکستان کے ان سپیشل اتھلیٹس نے آسٹریا کے تین شہروں میں منعقدہ سپیشل اولمپکس ورلڈ ونٹر گیمز میں شرکت کی اور پاکستان میں کھیلوں کا ایک نیا باب رقم کیا۔یہ کھیل آسٹریا کے تین شہروں رامسو، گراز اور شلاڈمنگ میں کھیلے گئے۔ دنیا کے ایک سو سات ممالک کے تین ہزار سے زیادہ کھلاڑیوں نے مقابلوں میں شرکت کی۔پاکستان نے کھیلوں میں شرکت کے لئے جو دستہ ترتیب دیا وہ16 کھلاڑیوں اور آفیشلز پر مشتمل تھا جن میں12 کھلاڑی اور 4 کوچ شامل تھے۔سپیشل اتھلیٹس کے لئے زندگی بھر خدمات انجام دینے والے انیس الرحمان کو دستے کا چیف ڈی مشن جبکہ دانیال علوی کو ڈپٹی چیف ڈی مشن مقرر کیا گیا۔ مرد کھلاڑیوں میں اسلام آباد سے محمدحمزہ اسلم، ایبٹ آباد سے حذیفہ قاضی اور اسامہ عزیز،لاہور سے محمد عبداللہ، گلگت بلتستان سے حمیز الدین اور پرویز احمد شامل تھے۔خواتین کھلاڑیوں میں مری سے صباحت طارق، ایبٹ آباد سے رمشا نعیم ، لاہور سے فرح احسان اور مہ وش طفیل، کراچی سے فاطمہ عامر جبکہ گلگت بلتستان سے
تہمینہ کا انتخاب کیا گیا۔ چونکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہر تین سپیشل اتھلیٹس کے لئے ایک کچ کا ہونا لازمی ہوتا ہے اس تناسب سے دو

خواتین اور دو مرد کوچز کا انتخاب کیا گیا۔ جب میں شمائلہ ارم، آمنہ پروین، زاہد فاروق اور عرفان انور شامل تھے۔
پاکستانی کھلاڑیوں نے ونٹر گیمز کے سنو شوئنگ اور کراس کنٹری سکینگ مقابلوں میں حصہ لیا۔ سنو شوئنگ میں کھلاڑی برف پر بیس انچ بڑا سپیشل جوتا پہن کر دوڑتے ہیں جبکہ کرا س کنٹری سکینگ میں دو نوں پاؤں میں سکینگ پہن کر دوڑا جاتا ہے یہ بظاہر نارمل کھلاڑیوں کی طرز پر منعقد ہوتے ہیں اور یہی وجہ تھی کہ پاکستان سپیشل اولمپکس نے کھلاڑیوں کو کئی ماہ تک خصوصی ٹریننگ دی جو گلگت بلتستان میں نلتر اور پھر ہزارہ ڈویژن میں شوگران کے مقام پر دی گئی۔ زاہد ملک جو پاکستان ائیر فورس کی جانب سے ونٹر گیمز کی ٹریننگ میں اہم مقام رکھتے ہیں، محمد سلیم، شمائلہ ارم اور آمنہ پروین نے کھلاڑیوں کو تربیت دی تربیتی سیشنز میں22 کھلاڑیوں نے شرکت کی جس کے بعد حتمی چھ خواتین اور چھ مرد کھلاڑیوں کا انتخاب کیا گیا۔ اگر کھلاڑیوں کے انتخاب پر ایک نگاہ دوڑائی جائے تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملک بھرمیں دستیاب باصلاحیت کھلاڑیوں کو ملک و قوم کی نمائندگی کا حق دیا گیا۔
پاکستانی دستے نے دیگر ممالک کے ساتھ شلاڈمنگ کے برفیلے پہاڑ پر منعقدہ انتہائی شاندار اور رنگا رنگ افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔شدید اور مسلسل بارش بھی دنیا بھر سے آئے ہوئے سپیشل اتھلیٹس اور آفیشلز سمیت ہزاروں شائقین نے اڑھائی گھنٹے سے زیادہ تقریب سے بھرپور لطف اٹھایا۔برف سے بھرے پہاڑوں کے عین وسط میں منعقدہ تقریب میں دنیا کے107 ممالک کے تین ہزار سے زیادہ اتھلیٹس نے مارچ پاسٹ کیا۔مارچ پاسٹ کی ترتیب کسی بھی اولمپک مقابلوں کی طرح تھی۔پاکستانی دستے کی قیادت انیس الرحمان نے کی۔پاکستانی کھلاڑیوں نے اس وقت دنیا بھر سے آئے ہوئے اتھلیٹس اور آفیشلز کی توجہ حاصل کر لی جب مرد کھلاڑی سفید شلوار قمیض، سبز واسکٹ اور سروں پر ہنزہ کی ثقافتی ٹوپیاں جبکہ خواتین کھلاڑی اور آفیشلز شلوار قمیض اور سندھ کی خصوصی اجرک زیب تن کئے سٹیڈیم میں داخل ہوئیں۔سپیشل اولمپکس پاکستان کی چئیر پرسن مسز رونق اقبال لاکھانی بھی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے موجود تھیں۔جونہی پاکستانی دستہ مارچ پاسٹ کے لئے بنائے جانے والے سرخ ریمپ سے سٹیڈیم میں داخل ہوا تو پاکستان کا نام فضا میں بلند ہوتے ہی پاکستانی کھلاڑیوں نے ہاتھ ہلا کر شائقین کی تالیوں کا جواب دیا۔پاکستانی دستہ بارہ کھلاڑیوں اور سات آفیشلز پر مشتمل تھا۔کھیلوں میں سب سے بڑا دستہ میزبان آسٹریا کا تھا جس میں 320 کھلاڑی اور آفیشلز شامل تھے۔ موناکو کی شہزادی شارلین بھی مارچ پاسٹ میں اپنے ملک کے دستے کے ہمراہ تھیں ۔مارچ پاسٹ کے بعد ممتاز گلوکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا جبکہ �آسٹریا کے نامور اولمپئنز اور عالمی چیمپئن کھلاڑی سپیشل اولمپکس کا پرچم تھامے سٹیڈیم میں داخل ہوئے۔تقریب کی ایک اور خاص بات کئی سو فٹ کی بلندی سے یونان کے دو سو پولیس اہل کاروں کا ہاتھوں میں شمع لئے سٹیڈیم میں داخل ہونا تھا جس کے بعد سپیشل اولمپک ورلڈ ونٹر گیمز کی شمع سوئٹزر لینڈ کے اتھلیٹس کے حوالے کی گئی جنہوں نے اسے آسٹریا کے ممتاز کھلاڑیوں کے سپرد کیا جسے بعد میں سٹیڈیم میں روشن کر دیا گیا۔بارش کے باوجود آتش بازی کا دلفریب مظاہرہ کھلاڑیوں اور شائقین کی توجہ کا مرکز رہا۔آسٹریا کے صدر ایگزینڈر وان نے سپیشل اولمپکس ورلڈ ونٹر گیمز کا باضابطہ افتتاح کیا اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ آسٹریا کے لئے دنیا بھر کے سپیشل اتھلیٹس کی میزبانی باعث اعزاز ہے۔سپیشل اولمپکس انٹرنیشنل کے چئیرمین ٹموتھی شرایور
نے کہا کہ ان کھیلوں کے ذریعے ساری دنیا کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ سپیشل اتھلیٹس بھی کسی نارمل کھلاڑی سے کم نہیں اور آسٹریا میں دنیا بھر سے آنے والے کھلاڑیوں کا اجتماع اس امر کا بین ثبوت ہے کہ سپیشل اولمپکس ورلڈ گیمز اب ساری دنیا میں مرکز نگاہ بن گئے ۔
اس افتتاحی تقریب کے اگلے روز کھیلوں کا سلسلہ شروع ہو گیا اور پاکستانی کھلاڑیوں نے پہلے ہی دن عمدہ پرفارمنس دی۔سپیشل اولمپکس ورلڈ ونٹر گیمز کی 100 میٹر دوڑ کے خواتین مقابلوں میں پاکستان کی صباحت طارق نے سونے کا تمغہ جیت کر میڈلز کے حصول کا سلسلہ شروع کیا ۔مردوں کے مقابلوں میں حذیفہ قاضی اور پرویز احمد نے چاندی کے تمغے اپنے نام کئے۔پاکستان کی فاطمہ عامر اور عبداللہ نے اپنی ایج کیٹگری میں باالترتیب چاندی اور کانسی کے تمغے جیتے ۔اگلے روز پاکستان کے حزیفہ قاضی نے مردوں کی دو سو میٹر دوڑ میں سونے کا تمغہ جیت لیا جبکہ پاکستان کی خواتین کی ریلے ٹیم جس نے سو ضرب چار سو میٹر دوڑ میں حصہ لیا پہلی پوزیشن حاصل کی ۔اس ٹیم میں صباحت طارق، فرح احسان، رمشا نعیم اور فاطمہ عامر شامل تھیں۔ اسی طرح مردوں کی دو سو میٹر ریلے میں پاکستان سے چاندی کا تمغہ جیتا اس ٹیم میں حذیفہ قاضی، محمد عبداللہ طاہر، محمد حمزہ اسلم اور پرویز احمد شامل تھے۔انفردای مقابلوں میں پرویز احمد نے سو میٹر کی ڈویژن دس میں چاندی کا تمغہ جیتا،حزیفہ قاضہ نے اسی دوڑ میں چاندی کا تمغہ اپنے نام کیا۔خواتین کی سومیٹر دوڑ میں صباحت فاطمہ کے بعد ڈویژن تھری میں فاطمہ عامرنے چاندی کا تمغہ اپنے نام کیا۔خواتین کی دو میٹر دوڑ کی دویژن چار میں فاطمہ عامر نے پاکستان کے چاندی جبکہ ڈویژن سیون میں فرح احسان نے کانسی کا تمغہ جیتا۔خواتین کی پچاس میٹر دوڑ میں مہ وش طفیل کانسی کے تمغے کی حقدار ٹھریں جبکہ سو میٹر دوڑ میں بھی انہوں نے کانسی کا تمغہ جیتااس طرح مجموعی طور پر پاکستان نے سونے کے3، چاندی کے 7 اور کانسی کے 6 مجموعی سولہ میڈلز حاصل کئے۔
وطن واپسی پر پاکستانی دستی تین الگ الگ پروازوں کے ذریعہ اسلام آباد، لاہور اور کراچی پہنچا جہاں سپیشل اولمپکس پاکستان کے عہدے داروں،کھلاڑیوں کے رشہ دار احباب اور لوگوں کی بڑی تعدادنے سپیشل اتھلیٹس کا پرتپاک استقبال کیا ۔پشاور زلمی کی جانب سے میڈل حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کے لئے ایک ایک لاکھ روپے کے اعلان نے بھی کھلاڑیوں کویک نیا ولولہ دیا ہے اور کھلاڑی بہت خوش تھے ان کا کہنا کہ وہ حیران ہیں کہ کسی نے ان کے لئے بھی انعام کا اعلان کیا ہے گویا پشاور زلمی نے سپیشل اتھلیٹس اور انہیں چاہنے والوں کی توجہ بھی حاصل کر لی ہے۔پاکستان میں متعین آسڑین سفیر ڈاکٹر بریگیٹا بلاح نے بھی پاکستانی دستے کے اعزاز میں استقبالیہ دینے کا اعلان کیا
ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت پاکستان کو وطن عزیز کے سپیشل کھلاڑیوں کی خدمات سراہنے کا خیال کب آتا ہے۔

About BLI News 3239 Articles
Multilingual news provider for print & Electronic Media. Interviews, Exclusive Stories, Analysis, Features, Press Conferences Photo & Video Coverage and Economic Reviews, Pakistan and Worldwide. Opinions, Documentaries & broadcast.