سید ضوفیشان علی
1983 میں امریکی ماہرِنفسیات ہاورڈ گارڈنر نے ’’ملٹی پل انٹیلی جنس‘‘ (کثیر ذہانتوں) کا نظریہ پیش کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ ایک انسان میں 9 طرح کی ذہانتیں ہوتی ہیں۔ اس نظریئے سے پہلے یہی سمجھا جاتا تھا کہ جو حساب کتاب میں اچھا ہے یا جس کا حافظہ مضبوط یعنی یادداشت اچھی ہے، بس وہی ذہین ہے۔
اس تھیوری کو پیش کرنے سے پہلے ہاورڈ گارڈنر نے ذہنی پسماندہ بچوں پر تحقیق کی اور مشاہدہ کیا کہ ایک بچہ اگرچہ ذہنی طور پر پسماندہ ہے لیکن گانا گانے میں بہت اچھا ہے، یا کوئی کھیل بہت اچھا کھیلتا ہے۔
میں یہاں صرف سماجی ذہانت کی بات کروں گا۔ مشاہدہ ہے کہ جن لوگوں میں یہ ذہانت پائی جاتی ہے، ان کے دوسرے لوگوں سے تعلقات عام افراد کی نسبت زیادہ بہتر ہوتے ہیں، ان کا حلقہ احباب بڑا ہوتا ہے، لوگ ان سے اپنے مسائل بیان کرتے ہیں، گھر کے کسی بھی بڑے فیصلے میں انہیں لازماً شامل کیا جاتا ہے اور لوگ ان سے ملنا جلنا پسند کرتے ہیں۔
جس شخص میں یہ ذہانت پائی جاتی ہے، اگر اس کے پاس کوئی بڑا مقصد ہے تو وہ اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب رہتا ہے کیونکہ کسی بھی بڑے مقصد کو حاصل کرنے کےلیے مختلف افراد کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ لوگوں سے تعلقات بنانے میں ماہر ہوتے ہیں۔
گارڈنر کہتا ہے کہ میں نے سماجی ذہانت کا مطالعہ کیا اور ان لوگوں سے ملاقات کی جن میں یہ ذہانت پائی جاتی ہے۔ میرے سامنے ان کی کئی خوبیاں آئیں۔ خصوصاً یہ دوسرے لوگوں اور ان کے چھوٹے چھوٹے کاموں کی بھی تعریف کرتے ہیں۔
سماجی ذہانت سے متعلق وہ مزید کہتے ہیں: ’’نیویارک ٹیلی فون کمپنی کی تحقیق کے مطابق گفتگو کے دوران سب سے زیادہ بولا جانے والا لفظ ’’میں‘‘ ہے۔ انسان کےلیے سب سے زیادہ اہمیت خود اپنی ذات کی ہوتی ہے۔ تعریف ایک ایسا زبردست ہتھیار ہے جسے میں نے جہاں بھی استعمال کیا، اس سے مجھے بہت شاندار نتائج ملے۔‘‘
اس کی مثال دیتے ہوئے وہ ایک شخص کا واقعہ بیان کرتے ہیں: میرے بیٹے کی رائٹنگ بہت خراب تھی جس کی وجہ سے اس کی والدہ اور ٹیچر بہت پریشان رہتی تھیں۔ ایک دن میں نے اسے ٹیوشن پڑھایا۔ جیسے ہی وہ ایک لفظ لکھتا، میں اسے شاباش دیتا اور اس کے لکھے گئے الفاظ کی تعریف کرتا کہ کتنا اچھا لکھا ہے۔ اس طرح چند دنوں میں اس کی رائٹنگ میں بہت بہتری آگئی۔ اب میں روزانہ جب کام سے گھر جاتا ہوں تووہ بستے سے اپنی کاپی نکال کر مجھے دکھاتا ہے کہ دیکھیے بابا! میں نے کتنا اچھا لکھا ہے۔
ہم جب بھی کسی کام پر کسی کی تعریف کرتے ہیں تو وہ اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اگر آپ اس ہتھیار کو اپنی ازدواجی زندگی میں استعمال کریں گے تو واضح طور پر آپ کو رشتے میں بہتری محسوس ہوگی۔ اور اگر آپ کسی ادارے میں سینئر پوزیشن پر ہیں تو بھی یہ آپ کےلیے بہت کارآمد ہوگا۔
کامیاب لوگ دوسروں کی بات پوری توجہ اور دلچسپی سے سنتے ہیں۔ جب تک دوسرا بات ختم نہ کرلے، اس وقت تک اپنی بات شروع نہیں کرتے اور دوسروں کو زیادہ بات کرنے کا موقع دیتے ہیں۔
بہت سے لوگ دوسروں پر اس لیے اثرانداز نہیں ہو سکتے کہ وہ دوسروں کی بات کو توجہ سے نہیں سنتے۔ وہ اس خیال میں ڈوبے رہتے ہیں کہ وہ بات ختم کردے گا تو ہم کیا کہیں گے؟ وہ اپنے کان کھلے نہیں رکھتے بلکہ اپنی زبان کو تیز کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ بقول گارڈنر، مجھے ’’بڑے آدمیوں‘‘ سے یہ سبق ملا ہے کہ وہ اچھا بولنے والے پر اچھا سننے والے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ ایک خوش گفتار شخص بننا چاہتے ہیں تو اپنے اندر لوگوں کی باتیں سننے کی صلاحیت پیدا کیجیے۔
مزید یہ کہ کامیاب لوگ ہمیشہ بحث اور دلیل بازی سے پرہیز کرتے ہیں۔ بحث جیتنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ دلیل بازی سے پرہیز کیجیے۔ دلیل بازی سے اتنا ہی دور بھاگیے جتنا آپ زہریلے سانپ اور خوفناک زلزلے سے بھاگتے ہیں۔ 90 فیصد واقعات و معاملات میں ایسا ہوتا ہے کہ بحث کے خاتمے پر فریقین میں سے ہر شخص یہ احساس لے کر اٹھتا ہے کہ وہ عین راستی (حق) پر اور اس کا حریف غلطی پر۔
آپ دلیل بازی سے اگر جیت بھی جائیں گے، تب بھی یہی سمجھیے کہ آپ ہار گئے ہیں۔ کیونکہ فرض کیجیے کہ آپ کو اپنے حریف پر کامیابی مل جاتی ہے اور آپ اس کی دلیلوں کو رد کرکے پھینک دیتے ہیں اور ثابت کردیتے ہیں کہ وہ غلطی پر ہے، پھر کیا ہوگا؟ آپ خوش ہوں گے۔ لیکن وہ؟ وہ آپ کی فتح سے نفرت کرے گا۔ جس آدمی کو مجبوراً کوئی بات ماننی پڑ رہی ہو وہ اپنےغرور کی خاطر اپنی پہلی بات پر قائم رہنے کی کوشش کرتا ہے۔
ہم بھی ان سب باتوں پر عمل کرکے لوگوں کے ساتھ بہتر تعلقات اور معاشرے میں ایک اہم مقام بناسکتے ہیں؛ اور ایک ایسی شخصیت کے مالک بن سکتے ہیں جسے لوگ پسند کریں۔